“بلوچ نے ظالم ریاست کے اُن تین مقاصد کو حاصل کرنے کے مقصد کو شکست دے دی ہے کہ جنھیں وہ حاصل کرنا چاہتا تھا،انھوں نے اپنے وقار ، اپنی مزاحمت کی روح اور اپنے قومی افتخارکو برقرار رکھا اورکم ظرف نہیں بنے۔
ظالم کے تین مقاصد ہیں: اول ، اپنے غلاموںکی توہین، وہ جانتا ہے کہ ایک کم ظرف آدمی کسی کے خلاف سازش نہیں کرے گا؛ دوم، ان کے درمیان بد اعتمادی کی پیدا کرنا؛ ایک ظالم کوتب تک اقتدار سے محروم نہیں کیا جاسکتا جب تک کہ لوگ ایکدوسرے پر اعتماد کرنا شروع کردیں – اور یہی وہ وجہ ہے کہ جابر اچھوں کےخلاف جنگ کرتے ہے؛ وہ اس خیال میں ہوتے ہیں کہ ِان لوگوںسے اُن کی طاقت چھننے کا خطرہ ہے، نہ صرف اسلئے کہ اُن پر جابرانہ طور پرحکومت نہیں کی جاسکتی، بلکہ اسلئے کہ وہ ایکدوسرے سے اور دوسرے لوگوں سے انتہائی حد تک وفادار ہوتے ہیں، اور ایکدوسرے کیخلاف یا دوسرے لوگوںکےخلاف مخبری نہیںکرتے ہیں؛ اور سوم، ظالم یہ چاہتا ہے کہ اسکے تمام غلام کسی بھی ممکنہ کارروائی کے قابل نہ ہوںاور کسی ایسے کام کی سعی نہ کرسکیں جوکہ ناممکن ہو اور اگر وہ بے سکت ہوںتو وہ کبھی بھی ظلم کا تختہ الٹنے کی کوشش نہیں کرپائیں گے۔
– ارسطو (384 قبل مسیح – 322 قبل مسیح)
جبکہ وزیر اعظم، وزیر داخلہ، فوج، سیاستدانوں اور مقتدرہ کا عام طور پر بلوچ کے حقوق اور حالت زار کےلئے ہمدردی اور تشویش کا ڈرامہ جاری ہے، وہ بلوچوں کو مارنے اور غائب کرنا بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ریاست ارسطو کی طرف سے بیان کردہ ظالم کے ان تین مقاصد کے حصول کی کوشش میں اغوائ، سفاکانہ قتل اور بلوچ عوام پر جبر کی ایک بے لگام اور انتھک پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔ جابروں نے تاریخ کبھی نہیں سیکھا کہ جس تشدد کا ارتکاب وہ لوگوں کےخلاف کرتے ہیں وہ آخر کار انہیں بھی بھسم کردے گی۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے نائب چیئرمین نصر اللہ بلوچ نے انکشاف کیا ہے کہ 1 مارچ، 2012 کو پاکستانی سیکورٹی فورسز نے کوئٹہ میں سریاب کے گوہر آباد کے علاقے میں چھاپہ مارا اور بلوچ گھروں کے حرمت پامال کی، عورتوں اور بچوں کو حراساں کیا۔ سات مرد اور تین لڑکوں کو ایک نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا ۔ گرفتار شدہ افراد میں امیر خان ولد گُلبہار، میر جان ولدامیر خان، بلخ شیر ولد امیر جان، محمد شیر ولد امیر جان، لال ولد دوران (عمر10 سال) ، گل میر ولد دوران ، ہزار خان ولد حبیب خان، مزار خان ولد حبیب خان، جاویدولد حبیب خان (عمر10 سال) اور حنیف ولد حبیب خان ( عمر 8 سال)، شامل ہیں۔ ایک اور متاثرہ مری قبیلے کے مزارانی خاندان سے تعلق رکھنے والے میر حبیب خان ہیں ، جن کو 26 مارچ، 2011 کو اسی طرح کے ایک چھاپے کے دوران ہلاک کیا گیا۔ ریاست نے اس بات کو یقین بنایا ہوا ہے کہ اُنکی عورتیں ،ان تمام لاپتہ افراد کے پیاروں کی طرح، 8 مارچ کو’خواتین کاعالمی دن‘ اس ’پاک سر زمین‘ میں سب سے احسن طورپرسوگ میں منائیں۔
یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے کہ ایک ہی خاندان کے تمام مرد ارکان کو اغوا کر لیا گیا ہو۔ گزشتہ اپریل کو، 70 سالہ احمد خان شیرانی، ایک مری خاندان کے نو ارکان کو کراچی سے ناردرن بائی پاس کے قریب اغوا کیا گیا تھا اور ان میں سے بیشتر تشدد کا نشانہ بنے اور بعد ازاں مردہ حالت میں پائے گئے۔ احمد خان کی لاش اسی سال 2 جون کو اُتھل سے برآمد ہوئی۔ اگر سول سوسائٹی، سپریم کورٹ اور میڈیا اسی خواب غفلت میں رہتے ہیں، تو حبیب خان مری کے خاندان کا انجام بھی احمد خان مری کے خاندان کے انجام سے مختلف نہیں ہو گا۔
بلوچ عوام کےخلاف اس ظلم اور انکے غم و غصہ نے بہت کم توجہ حاصل کی ہے جبکہ سونا چڑھے جھوٹے مجسموں نے میڈیا پرخبط کا دورہ طاری کردیاہے۔ ایک تھپڑ کی خبر وائرس کی طرح پھیل جاتی ہے لیکن ماورائے عدالت قتل کوبہ آسانی ایک کونے میں پھینک دیئے جاتے ہیں۔ میڈیا کی انتخابیت نے بلوچ عوام کے ذہنوں میں شبہ اور غصہ پیدا کردیا ہے جو اب تیزی سے سوشل نیٹ ورکنگ پر انحصار کرتے ہوئے ان خبروںکو نشر کرتے ہیں جنہیں ریاست روکنے کی تیاری کر رہا ہے۔
یہ اغواءبلوچ عوام کیلئے واحد بری خبر نہیں ہیں۔ 2 مارچ کو، محمد حسن، فتح محمد مری کی گولی سے چھلنی اور تشدد زدہ لاشیں – اس کی شناخت اس کی جیب سے برامد شدہ ایک نوٹ میں ظاہر کی گئی تھی – اور لسبیلہ کے عبدالرحمن کی بالترتیب منگوچر ، پشین اور وندر کے علاقوں سے پائی گئےں۔
3 مارچ کو، پہلے سے لاپتہ بلوچ عبدالقادر کی نعش، جعفرآباد کے علاقے نوتال سے پائی گئی۔ دوسری طرف بلوچ ریپبلکن پارٹی (BRP) کے اراکین زہرو ولد تگیو، لامبو ولد نوہک، منگل ولد زہرو اور رحیم بخش کی لاشیں ڈیرہ بگٹی میں پیرکوہ کے علاقے سے پائی گئےں۔ BRP کے ترجمان شیر محمد بگٹی نے کہا کہ انہیں نے 1 مارچ کو ڈیرہ بگٹی میں فوجی کارروائی کے دوران اغواءکیا گیا تھا۔
قتل اور اغوا کی بڑھتی ہوئی کارروائیاں بلا امتیاز اور سفاکانہ بن چکی ہیں۔ ریاست سماجی کارکنوں یا صحافیوں کو بھی نہیں بخشتا۔ گزشتہ سال 1 مارچ کو، نعیم صابر جمالدینی، جوکہ ایک دکاندار اور انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کے کوآرڈینیٹر تھے، خضدار میں مارے گئے جبکہ فیصل مینگل کو 10 دسمبر کو کراچی میں قتل کیا گیا۔ صحافی اور انسانی حقوق کے کارکن صدیق عیدو، اپریل میں ہلاک کیے گئے۔ جاوید نصیر رند، منیر شاکر، رحمت اللہ شاہین اور پانچ دیگرصحافیوں کو گزشتہ سال قتل کیا گیا تھا۔
بلوچستان کی صورتحال پر بنائی گئی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے 29 فروری کے سیشن نے صوبے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لئے صفر رواداری کا مطالبہ کیاتھا۔ وہ بھول گئے تھے کہ فرنٹیئر کور اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے ان بے جان کمیٹیوں اور کمیشنوں کے اشاروں پر نہیں چلتے۔
سندھ میں، ’جئے سندھ قومی محاذ‘ کے سینئر وائس چیئرمین ڈاکٹر میر عالم مری اور عمر تیوانوکو حال ہی میں خفیہ اداروں کے سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد نے حیدرآباد سے اٹھالیا تھا۔ گزشتہ ماہ دو لاپتہ سندھی کارکنوں، خادم لولاہی اور قربان جتوئی کی لاشیں لاڑکانہ کے قصبے مڈیجی میں پھینک دی گئیں۔ بشیر آریسر، مظفر بھٹو، افضل پنھور، ثناءاللہ عباسی، مرتضیٰ چانڈیو، محسن شاہ، احسن ملانو اور بابر جمالی سمیت بہت سے سندھی کارکن پہلے ہی سے لاپتہ ہیں۔ لگتا ہے کہ سندھی اور بلوچ افراد کے غائب ہونے پر کسی کو کوئی پرواہ ہی نہیں ہے۔
ریاست اور ’اسٹابلشمنٹ‘ بلوچ اور سندھی کے عوام کےخلاف اپنی اندھا دھند تشدد کے ساتھ انہی مقاصد کو حاصل کرنا چاہتی ہے جو کہ بہ گفتارِ ارسطو ایک ظالم کے مقاصد ہیں، یعنی غلاموں کی تذلیل، ان کے درمیان بد اعتمادی پیدا کرنا اور انھیں کسی بھی قسم کی کارروائی کرنے سے عاجز بنا نا تاکہ وہ جابرانہ حکمرانی کو تسلیم کرلیں۔ گزشتہ 65 سال سے، یہی مقاصد ذہن میں لئے، ریاست بلوچ قوم کی روح کو توڑنے کی سعی میں ناکام رہی ہے۔ بلوچ نے ہمیشہ تجدید جوش اور عزم کے ساتھ ان تسلسل سے بڑھتے ہوئے مظالم کا جواب دیا ہے۔
بلوچ نے ظالم ریاست کے اُن تین مقاصد کو حاصل کرنے کے مقصد کو شکست دے دی ہے کہ جنھیں وہ حاصل کرنا چاہتا تھا،انھوں نے اپنے وقار ، اپنی مزاحمت کی روح اور اپنے قومی افتخارکو برقرار رکھا اورکم ظرف نہیں بنے۔ دوم، اگرچہ ریاست نے ’اچھوں کیخلاف جنگ‘ میں اپنی مدد کرنے کیلئے کچھ بلوچ کاسہ لیس تو پیدا کئے ہیں، لیکن بلوچ عوام ایک دوسرے کے وفادار رہیں اور عمومی طور پر’ ایک دوسرے کےخلاف یا دیگر لوگوں کےخلاف مخبری نہیں کرتے‘۔ تیسرے، ریاستی دہشت گردی بلوچ کو ’ناقابل عمل‘نہیں بناسکی اور وہ بہادری سے ظلم کا تختہ الٹنے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس تمام منظم دہشت گردی نے جو کہ اب ’نسلی صفائی‘ پر مرکوز ہے، انھیں بے طاقت نہیں کرسکی، اور انہوں نے ’جبر کی حکمرانی‘ کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہے ۔ بلوچ نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ ولیم رالف اِنگے کا قول:”ایک شخص اپنے لئے سنگینوں کا ایک تخت تو بنا سکتا ہے لیکن وہ اس پر بیٹھ نہیں سکتا“، سچ ہے۔
مصنف کا بلوچ حقوق کی تحریک سے 1970 کے عشرے کے ابتداءسے ایک تعلق ہے