Let we struggle our way

Archive for the ‘BLA’ Category

شہید بالاچ مری – بلوچ چہ گویرہ

In Baloch Freedom movement, Baloch Martyers, BLA, bnf, bra, bso on January 18, 2011 at 11:16 pm

شہید بالاچ مری – بلوچ چہ گویرہ

تحریر نواز بگٹی

 

١٧ جنوری ١٩٦٥ کو بلوچستان کے معروف مری قبیلے کے سردار نواب خیر بخش مری کے ہاں بلوچ مستقبل کے درخشاں ستارے میربالاچ مری کی پیدائش ہوئی-  نواب صاحب نے بلوچ تاریخ کے مثالی بلوچ گوریلا بالاچ گورگیج کے نام پر اپنے بیٹے کا نام رکھتے ہوۓ شاید اپنے ذہن کے کسی گوشے میں اپنے فرزند کے مستقبل کے کردار کا کوئی تعین کر رکھا ہو ، لیکن انکے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا کہ انکا بالاچ بلوچ قوم کی آزادی کے راہ میں اپنے پیش رو بالاچ گورگیج کو بہت پیچھے چھوڑ دے گا

ابھی میر بالاچ کا بچپنا ہی نہیں گزرا تھا کہ نواب خیر بخش مری نے بلوچوں پر ہونے والے ریاستی مظالم کے خلاف بلوچ قومی آزادی کا علم بلند کیا – اپنے اس عظیم مقصد  کے لئے انھوں نے قید و بند کی صعوبتوں کے ساتھ ساتھ ہجرت کی اذیت بھی برداشت کی
کہتے ہیں کہ بچوں کی تربیت میں ماؤں کا کردار کلیدی اہمیت رکھتا ہے – اور بلوچ ماں کی لوری تو اپنے بچے کے لئے چاکرا عظم  سے کسی کم کردار پر رضا مند ہی نہیں ہوتی- میر بالاچ مری بھی بہادر ماں کی عظمت بھری لوریوں اور روایتوں کے امین ، عظیم باپ کے زیر تربیت پروان چڑھتے ہیں- انتہائی کم عمری ہی میں بلوچ اپنے گھر میں بلوچ آزادی کے شمع سے روشنی حاصل کرنے کا شرف بھی حاصل رہا – بلوچ قوم پر روا رکھے جانے والے انسانیت سوز مظالم اور بلوچوں کی جبری ہجرت ، دوران جدوجہد یش آنے والے دلخراش واقعات کے چشم دید گواہ بھی رہے

اپنی ابتدائی تعلیم بلوچ گلزمین سے دور افغانستان میں حاصل کی ، جبکہ اعلیٰ تعلیم روس کے دارلحکومت ماسکو  اور برطانیہ کے دارلحکومت لندن سے حاصل کی – پاکستان کی پارلیمانی سیاست میں بھی جلا وطن رہ کر حصّہ لیا – بلوچستان صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوۓ – اور حلف برداری کی تقریب میں ” پاکستان سے وفاداری ” کے منافقانہ الفاظ استعمال کرنے سے یکسر انکار اور بلوچستان سے وفاداری کے تاریخی الفاظ کی گونج  ریاستی اسمبلی میں سنائی دی

جب ریاستی نظام میں رہتے ہوۓ بلوچ قومی حقوق کے حصول کو نا ممکن جانا تو نواب اکبر خان بگٹی شہید کی معیت میں بلوچ آزادی و خود مختاری کے لئے ہتھیار اٹھاتے ہوۓ یہ تاریخی کلمات کہے ” میں نے اپنے لئے جس راہ کا انتخاب کیا ہے اس کے لئے اکثر و بیشتر ون وے  ٹکٹ ہی دستیاب ہوتا ہے ” . بلوچ قوم کی جدوجہد آزادی میں جس محنت اور جانفشا نی  سے حصّہ لیا اسکی بدولت انھیں بلوچ تاریخ کے چہ گویرہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے

ریاستی چیرہ دستیوں کے خلاف مسلح جدوجہد منظم کرنے کی وجہ سے ریاستی ادارے بہت عرصے سے میر بالاچ کی جان کے درپے تھے ، اور آخر کار ٢١ نومبر ٢٠٠٧ کو ریاست اپنے اس مذموم مقصد میں کامیاب ہوا ، اور بلوچ مجاہد میر بالاچ شہادت سے سرفراز ہوۓ – ریاستی افواج میر بالاچ مری کی شہادت کو اپنے لیۓ بہت بڑی فتح سمجھتی ہے ، ہر سال خصوصاً  میر بالاچ شہید کی روز پیدائش ١٧ جنوری ، اور روز شہادت ٢١ نومبر کو ریاستی افواج بلوچ قوم پر ظلم و بربریت کی انتہا کر دیتے ہیں . اپنی اسی روایت کو برقرار رکھتے ہوۓ اس سال بھی ١٧ جنوری کے دن ٥ بلوچ نوجوانوں کو اغوا کر کے اذیت ناک تشدد کے بعد انکی مسخ شدہ لاشیں وطن عزیز کے طول و عرض میں پھینک دی گئیں- بلوچ قوم پر چڑھائی کر کے گھروں کو جلایا گیا ، نوجوان شکل بگٹی کو شہید اور ٤٠ سے زائد بزرگوں اور جوانوں کو گرفتار کر کے نا معلوم اذیت گاہوں میں منتقل کیا گیا- تا کہ بلوچ قوم اپنے قومی ہیرو کو خراج تحسین پیش نہ کر سکیں

بالاچ شہید کی شہادت کا واقعہ اگرچہ بلوچ تحریک آزادی کے لئے انتہائی بڑا نقصان ہی رہا ، لیکن انکی شہادت نے بلوچ تحریک کو مزید مہمیز کر دیا . آج بلوچستان کے کونے کونے سے بلوچ نوجوان اپنا سر ہتھیلی پر رکھے میر بالاچ کے مقصد کی تکمیل کے راہ پر گامزن ہیں

 

علیحدگی پسند تحریکیں اور بیرونی امداد کی اہمیت – حصّہ ٦

In Baloch Freedom movement, BLA, bnf, bra, war game on January 11, 2011 at 4:13 pm

علیحدگی پسند تحریکیں اور بیرونی امداد کی اہمیت – حصّہ ٦
تحریر نواز بگٹی

طاقت، تبادلہ اور تشہیر -٢

-اس تحریر میں جن اشاریوں کا استعمال کیا جے گا ، ان سے صرف طلب حمایت کی وضاحت ہو پاۓ گی – مزاحمت کاروں کی امدادی ضروریات کا تعین نہیں ہو پاۓ گا-مزاحمت کاروں کے مقاصد ، کثیر القومی کمپنیوں ، مالیاتی اداروں ، یا ریاستی معاملات کی حکمت عملیوں میں کوئی بڑی تبدیلی لانے کے ہو سکتے ہیں –  یہ مقاصد کچھ بھی ہو سکتے ہیں ، کسی ڈیم پر کام روکنے سے لے کر کسی ملک کے دو لخت کیے جانے کی کوشش تک-ایک بات دھیان میں رہے اگر ان کے مقاصد آسانی سے حاصل ہونے والے ہوں تو وہ کبھی بھی بیرونی امداد کی جانب راغب نہیں ہوتے- یقیناً کسی بھی تحریک کے ذمہ دار یہ نہیں چاہیں گے کہ انکی امدادی اپیلیں رائیگاں جائیں ، اس لئے کسی بھی بین الا قوامی امدادی ایجنسی ، یا غیر ریاستی تنظیم کو با قاعدہ درخواست دینے سے پہلے ، اسکی امدادی صلاحیتوں ،تنظیمی مفادات ،  طریقہ کار ، اور اسے دستیاب وسائل کا بغور جائزہ لیا جاتا ہے -اور یہ  بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مزاحمت کاروں کو بھاری اور مسلسل امداد چاہیے ہوتی ہے-

پچھلی تحریر میں ہم مزاحمت کاروں کی بڑی تعداد کے امداد و حمایت کے مستحق ہونے کا ذکر کر کر چکے ہیں – وہ جنھوں نہیں اپنی ویب سائٹس شروع کی ہوئی ہیں ، یا عالمی اجتماعات میں شریک ہوتے ہیں ، انھیں اس معاملے میں ان سب پر برتری حاصل ہے جو ان علامتی سنگ میلوں کو ابھی تک عبور نہیں کر پاۓ-
واضح ہو کہ اس بحث میں خفیہ امداد کی طلب کا پہلو تشنگی کا شکار رہے گا – بیتابی سے امداد کے منتظر لوگوں میں بیرونی امداد کی آمد کے جادوئی اثرات دیکھنے میں آئ ہیں- معروف مصنف کیری مایر کے بقول ” ایکواڈور کے دیہاتوں میں ، جیسے ہی بین الا قوامی اداروں کی جانب سے رقم کا بندوبست کیا گیا ، مقامی ماحولیاتی تنظیموں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا -” وسیع تجریدی بنیادوں کے مشاہدے میں ماہرین سماجیات کے مطابق اس تیرہ کی امداد سیاسی مواقع میں اضافے کا سبب بنتی ہے، یعنی وسائل اور اتحادیوں کی موجودگی سماجی تحریکوں کو مہمیز کرتی ہیں-پس بیرونی وسائل تک رسائی سے مزاحمت کاروں کی تعداد یا انکے مطالبات میں مقامی ضروریات کے مطابق اضافہ ہو جاتا ہے
ضروری نہیں کہ غاصب و طاقتور کا مقابلہ کرنے والی ہر تنظیم /گروہ/تحریک اپنے مقاصد کو بین الا قوامی سطح پر اجاگر کرے – بسا اوقات مخصوص مذہبی اعتقادات یا قومی تصورات کے تقاضوں کے پیش نظر کچھ تحریکیں اپنے معاملات کو بین الا قوامیت کا درجہ دینے سے گریز کرتی ہیں- شاید یہی وجہ ہے کہ پیرو کی مشہور ” شائننگ پاتھ ” نامی مزاحمتی تحریک خود کو بین الا قوامی سطح پر بہت کم متعارف کرواتی ہے- کچھ مزاحمت کاروں کو اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے اپنی ہی آبادیوں سے مناسب وسائل دستیاب ہو جاتے ہیں-ہندوستان کے کچھ مذہبی گروہ اپنے علیحدہ ریاستوں ( صوبائی یونٹس ) کے قیام کی جدجہد میں ، مقامی وسائل کے استعمال سے کامیاب ہوئی ہیں ، انھوں نے کبھی بین الا قوامی امداد نہیں حاصل کی -مقامی سیاست کے تقاضے بھی بیرونی امداد سے پہلو تہی کی وجہ ہو سکتے ہیں- جیسے کہ فیڈل کاسترو کی حکومت کے مقامی مخالفین ، امریکی امداد قبول کرنے سے انکار کرتے آۓ ہیں- ملائیشیا میں بھی شہری سماج کی تنظیمیں بیرونی این-جی-اوز سے امداد لینے سے گریز کرتی ہیں کیوں کہ ملک کی سیاسی قیادت این-جی-اوز کو مغربی دنیا کی پیادہ سپاہ سے تشبیہ دیتے ہیں- ان اصولوں سے سیاسی بنیادوں پر اختلاف کی گنجائش بھی موجود ہے ، جیسے کہ  کے امریکا کے معروف ماہر سیاسیات ” ایلمر ایرک ایس ” کے خیال میں تمام سیاسی دساتیر کی بنیاد توسیع پسندی ہے ، اپنے مقاصد میں  کامیابی کے لئے دستیاب وسائل کی کمی سے تنگ آ کر ہی مزاحمت کار بیرونی امداد کا طلبگار ہوتا ہے
بین الا قوامی امداد کی ترسیل پر اگر نگاہ ڈالی جاۓ تو ، گزشتہ چند سالوں میں این-جی-اوز کے  وسائل میں نمایاں اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے- اس کے با وجود  اہم امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ وہ مقامی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہیں-ہیومن رائٹس واچ  دنیا بھر میں انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی ایک معتبر تنظیم کے طور پر جانی جاتی ہے ، اس تنظیم کا کہنا ہے کہ ” ہم واضح طور پر بہت سارے سنگین انسانی حقوق کے مسائل سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ” – اسی طرح  امریکی شہر واشنگٹن ڈی-سی- میں قائم  ” انٹر نیشنل فاونڈیشن فار الیکشن سسٹمز ” نامی تنظیم اپنی ایک رپورٹ میں  دنیا بھر سے جمہوریت اور انتظامی مدد کے طلبگاروں کی تعداد میں غیر معمولی اضافے کا انکشاف کرتی ہے-عالمی بینک کے مطابق ترقی کے میدان میں کام کرنے والی این-جی-اوز کے وسائل ، غربت کے دائرہ کار اور گہرائی کے مقابلے میں بونوں کی سی حیثیت رکھتے ہیں- صرف انسانی حقوق یا غربت کے خاتمے کی تنظیموں کا ہی یہ حال نہیں ہے ، ماحولیاتی میدان میں کام کرنے والی تنظیموں کے وسائل پر اگر نظر ڈالی جاۓ تو ان کے حالات بھی دگر گوں نظر آتے ہیں- ماحولیات پر کام کرنے والی ایک تنظیم انٹر نیشنل ریور نیٹ ورک  کا کہنا ہے کہ وہ کم وسائل کی بنا پر صرف ان معاملات پر دھیان دینے کی کوشش کرتے ہیں جن سے عالمی ماحول کو شدید خطرات لاحق ہوں
ایک طرف این-جی-اوز کو  مقامی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے  معاشی مشکلات کا سامنا ہے ، تو دوسری جانب انھیں اپنے ریاستی سرپرستوں ،اور مخیر حضرات سے  تنظیم کے لئے مالی وسائل کا بندوبست کرنے کے لئے شدید مسابقت کا سامنا ہے-گزشتہ تھوڑے سے عرصے میں جہاں کئی ایک نئی این-جی-اوز ظہور پذیر ہوئی ہیں ، وہاں  درجنوں وسائل کی کمی کا شکار ہو کر معدوم بھی ہو گئیں- مسابقت کا ماحول این-جی-اوز کو انفرادیت برقرار رکھنے پر مجبور کرتی ہے ، جس کی بناء پر این-جی-اوز مخصوص مسائل پر ہی اپنی توجہ مرکوز کرتی ہیں یا پھر کسی مخصوص میدان میں مہارت کا مظاہرہ کرتی ہیں- مسائل و مصائب کے اس گورکھ دھندے میں گھرے رہنے کے باوجود این-جی-اوز کسی تحریک کی مدد کو مردانہ وار آگے آتی ہیں- بنیادی طور پر دنیا بھر کے مخیر حضرات / اداروں اور مستحقین کے بیچ ان تنظیموں کا کردار دربان کا سا ہوتا ہے- اپنی سالوں کی محنت سے اس دربان کو یہ محترم جگہ بھی مل جاتی ہے کہ وہ  کسسی بھی خطّے میں ، کسی بھی تحریک کی مدد کا فیصلہ کرے- این-جی-اوز کے کردار کے علاوہ جو چیز اہم ہے ، وہ ہے انکی معلومات کو وسیع پیمانے پر پھیلانے کی صلاحیت- کیونکہ دوسری این – جی – اوز ، صحافیوں اور سرکاری اداروں تک انکی رسائی کسی دوسرے کی نسبت بہت زیادہ ہوتی ہے- ایسی صورتحال میں اگر یہ دربان براہ راست کسی تحریک کے حق میں کوئی بات نہ بھی کریں تو ،دوسرے ذرائع سے کسی بھی تحریک کو نہ صرف زبان ، اور پہچان دے سکتے ہیں بلکہ انکے تحریک کے جائز اور اہم ثابت کر کے انکی حمایت پر اپنی رضامندی بھی ظاہر کی جاتی ہے- بہت سارے معاملات پر ایسے دربان تلاش کرنا قدرے آسان ہوتا ہے- انسانی حقوق کے میدان میں ، ہیومن رائٹس واچ ، اور ایمنسٹی انٹر نیشنل کا کردار ،  ماحولیات کے میدان میں گرین پیس اور فرینڈز آف ارتھ نامی تنظیمیں کچھ اس طرح ہی کا کردار ادا کرتی ہیں
چونکہ اکثر این-جی-اوز کے پاس مزاحمتی تحریکوں کے دعووں کو پرکھنے کے لئے ضروری مہارت اور وسائل نہیں ہوتے اسی لئے وہ ان دربان صفت این-جی-اوز کی سفارشات پر بہت حد تک انحصار کرتے ہیں- ایسے این -جی-اوز کو پیروکار این-جی-اوز کہنا غلط نہ ہوگا – در حقیقت یہ پیروکار این-جی-اوز جن تحریکوں کی مدد یا حمایت کر رہے ہوتے ہیں ، ان سے باہمی روابط بھی براۓ نام ہی رکھ پاتے ہیں –  امریکی سیریا کلب کا ایک نمائندہ دربان صفت این-جی-اوز پر اپنے انحصار کی وجہ بیرونی دنیا میں اپنے تنظیمی ڈھانچے کے نہ ہونے کو قرار دیتے ہیں- انکا کہنا ہے ” چونکہ امریکا سے باہر ہمارے منظم دفاتر نہیں ہیں ، اسی لئے ہم “ایمنسٹی انٹر نیشنل ، ہیومن رائٹس واچ ، اور ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ ” جیسے اداروں کی دی گئی معلومات پر تکیہ کرتے ہیں
امدادی کاموں میں انتہائی اہم کردار کے باوجود ممکن ہے کہ دربان صفت این-جی-اوز کسی مزاحمتی تحریک کے پہلے حمایتیوں میں نہ ہوں – بہتر ہوگا کہ تحریک ابتدائی مراحل میں غیر نمایاں تنظیموں سے اپنے رابطے استوار کرے ، ایسی تنظیمیں ان کے مقاصد کو مناسب انداز میں معروف دربانوں تک پہنچانے میں بنیادی کردار ادا کر سکتی ہیں- ایسی غیر نمایاں تنظیموں کی جگہ  ایسے افرادبھی لے سکتے ہیں ، جن کے تحریک سے گہرے روابط ہوں – یا پھر اساتذہ کرام / علماء کرام بھی جز وقتی طور پر تحریک کے مقاصد کو مناسب آواز دے سکتے ہیں- امریکا کے ماہرین بشریات نے امریکا کے بسنے والے قدیم نسلوں کی حقوق کے  تحفظ کے لئے ایک ایسا ہی کامیاب تجربہ کیا ہے- کچھ این-جی-اوز پیشہ ور انداز میں اسس طرح کے کام کے لئے بھی اپنی خدمات وقف کرتی ہیں -تا کہ مقامی تحریکوں کی  مناسب امدادی اداروں اور ممکنہ امدادی ڈھانچے سے رابطے استوار کرنے کے لئے راہنمائی کر سکیں- اس سلسلے میں نایجیریا کے ” کدرت انیشیٹو فار  ڈیولپمنٹ ” نامی ادارے کی مثال دی جا سکتی ہے ، جیسا بنیادی مقصد شہری سماج کی تنظیموں کو مناسب و ممکنہ امدادی اداروں تک رسائی کے لئے سہولیات کی فراہمی ہے- وسیع تر معنوں میں اس تمام صورتحال کو یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ  ” بین الا قوامی امدادی تنظیمیں ،دربان صفت تنظیموں کی سفارشات کے بنیاد پر  مقامی امدادی تنظیموں کے توسط سے انسانی امداد کی مقامی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں

دو باتیں تو بہت واضح ہو جاتی ہیں ، پہلی یہ کہ امدادی سلسلہ ہمیشہ یکطرفہ نہیں ہوتا ، اور دوسری بات یہ کہ ہر امدادی سلسلے کے پیچھے کئی ایک راہنما قوتیں کار فرما ہوتی ہیں- لیکن ایک بات کی نشاندہی ضروری ہے کہ ہر معاملے میں متعلقہ این-جی-اوز کا کردار یکساں نہیں رہتا – مختلف تنازعات کے امدادی کاموں میں سرگرم این-جی-اوز کے کردار کا بغور مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ ایک ہی این-جی-او کسی ایک معاملے میں دربان کا کردار ادا کر رہی ہوتی ہے تو اسی وقت کسی دوسرے معاملے میں پیروکار کا- اسی لئے کسی بھی تحریک کے لئے ضروری ہے کہ بین الا قوامی سطح پر امداد کی اپیل سے پہلے مناسب غیر ریاستی تنظیم کے انتخاب میں ضروری عرق ریزی سے کام لے

(جاری ہے …………….)

علیحدگی پسند تحریکیں ، اور بیرونی امداد کی اہمیت – حصّہ ٥

In Baloch Freedom movement, BLA, bnf, bra, gurriella warfare, war game on January 11, 2011 at 3:29 am

علیحدگی پسند تحریکیں ، اور بیرونی امداد کی اہمیت – حصّہ ٥
تحریر نواز بگٹی
طاقت ، تبادلہ ، اور تشہیر
حمایت کے حصول کی خاطر مزاحمتی تحریک کے لئے ضروری ہے کہ وہ اقوام عالم سے اپنے روابط استوار کرے ،  اپنی راہ میں قربانیاں دے ، اور بہت کم داؤ پر لگاتے ہوۓ نسبتاً زیادہ مراعات حاصل کر سکے – اور اکثر مزاحمتی تحریکوں کو حالت کے دباؤ ، دشمن کے کشت و خون ، وسائل کی کمی ، یا غیر نمایاں مقام ایسا کرنے پر مجبور بھی کرتی ہیں – بین الا قوامی  برادری سے مربوط رشتے تحریکوں کو اپنی جیسی مسابقتی تحریکوں سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت بھی فراہم کرتی ہیں – تاہم امداد کے وعدے علاقائی تنظیموں کو عالمی برادری کی جانب راغب ضرور کرتی ہے – لیکن یہاں انھیں اپنے تصور سے کچھ زیادہ ہی بے وقعت ماحول کا سامنا کرنا پڑتا ہے – یقیناً بیرونی دنیا کے لئے پایا جانے والا ہمدردی کا جزبہ این-جی-اوز کومنافع خور  کثیر القومی کمپنیوں اور اپنی طاقت کے گھمنڈ میں سرشار ریاستوں سے ممتاز کرتی ہیں – جیسے کہ  این -جی-اوز کا مرکزی مطمع نظر ، خیالات ، اصول و ضوابط ، اور فلاح و بہبود کے منصوبوں کی ترویج ہوتی ہے – انکے حالیہ بڑھتے ہوۓ اثر و رسوخ نے دنیا بھر میں تنازعات  پر مقالموں و مباحثوں کے انعقاد ،وسیع تر انتخاب ، اور بہتر نتائج کے ذریعے  عالمی سیاست کے بارے میں اقوام عالم کو ایک نۓ نقطہء نظر سے متعارف کروایا – مظلوموں کی طرف سے رضاکارانہ کاروائی انکے بنیادی اقدار میں سے ایک ہے – اور اکثر این-جی-اوز کے عمال اپنی متعین کردہ راہ عمل کو انتہائی اخلاص اور خوش اسلوبی سے نبھاتے ہیں – لیکن این-جی-اوز اپنی تمام تر اچھائیوں کے باوجود -ایک تنظیم ہی ہوتی ہیں – انہیں  بھی  ، کسی بھی تنظیم کی طرح ، بقا ، بحالی ، اور نشونما کے بنیادی مسائل کا سامنا رہتا ہے- عالمی رشتے استوار کرتے وقت ان مسائل سے نمٹنا بذات خود ایک مسلہ ہوتا ہے -مزاحمتی تحریک  چاہے کتنی بھی مربوط نیٹ ورک کا حامل کیوں نہ ہو ، اس کے اغراض و مقاصد، دائرہ عمل ،اور  طریقہء کار  کسی بھی این-جی-او سے یکسر مختلف ہوتے ہیں – حالانکہ دونوں ہی محکومانہ سیاسی نظام ، اور پیسے ہوۓ طبقے کے درمیان کام کر رہے ہوتے ہیں
دو مختلف کرداروں کے تناظر میں مزاحمتی تحریک اور کسی بھی این-جی-او کے درمیان رشتے کو صرف با ہمی تبادلے کا نام دیا جا سکتا ہے – ایک مدت سے سماجی تجزیوں میں باہمی تبادلے کا یہ تصور تو رائج ہے ہی لیکن بین الا قوامی نیٹ ورکس کے پڑھنے والے شاید اس تصور کے بصیرت کی گہرایوں کو جانچنے سے قاصر رہے- اس تناظر میں ایک طرف تو مزاحمتی تحریک اپنے لیے  اخلاقی جواز کے ساتھ ساتھ  معاشی ، مادی ، اور معلوماتی مدد کی منتظر ملتی ہے تاکہ اپنے سے طاقتور دشمن کا مقابلہ کر سکے – جبکہ دوسری طرف این-جی-او اپنے محدود مفادات اور  مخصوص مقاصد لئے – مقامی تحریکوں کی حمایت کر کے این-جی-اوز  ضرورت مندوں کی زیادہ سے زیادہ مدد کرنے ، اور اپنے اصولی یا سیاسی مقاصد کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کے قابل ہوتی ہیں – انہیں اہم غیر مادی وسائل تک بھی رسائی حاصل ہو جاتی ہے – سب سے اہم این-جی-او کے لئے بین الا قوامی طور پر متحرک ہونے کا اخلاقی جواز فراہم ہونا ہوتا ہے ، انکی یہ ضرورت کبھی نہ ختم ہونے والی ہوتی ہے- اپنے دائرہ اثر میں پر وقار مقام دلا کر ، یا دوسری تحریکوں کے بارے میں کارآمد معلومات فراہم کر کے،  اکثر امداد وصول کرنے والی تحریکیں ، اپنی سرپرست این-جی-اوز کو وسیع تر مہمات کے  کی تیاری میں مدد فراہم کر رہے ہوتے ہیں- مزید برآں عقلمندی سے کام لینے والی تحریکیں ، اپنی سرپرست این-جی-اوز کے محدود وسائل کو حتیٰ الا مکان بچانے کی کوشش بھی کرتے ہیں تا کہ انھیں کسی اور جگہ / کسی اور مقصد یا جدوجہد  کے لئے استعمال کیا جا سکے
اسی طرح کی باہمی مفادات عالمی حمایت کی  فضا ہموار کرتی ہیں – لیکن اس منڈی میں فریقین کے ما بین طلب و رسد کا فرق بہت زیادہ ہوتا ہے-طلب کی طرف ،امداد کے حصول کی خاطر ، (حالات سے تنگ یا پھر موقع اور وسائل کا فائدہ اٹھانے کی کوشش میں مصروف )،   بہت سارے مزاحمت کار وں کی مسلسل اپیلیں ہوتی ہیں – اگرچہ مزاحمت کاروں کے درست اعداد و شمار تو دستیاب نہیں ہو سکتے ، لیکن امدادی اداروں کو ، بذریعہ ای-میل ، فیکس، یا پھر براہ راست  درخواستیں دی جاتی ہیں- مزاحمت کاروں کی تعداد کا اندازہ لگانے کے لئے انٹر نیٹ پر موجود انکے ویب سائٹس کو بھی اشاریے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے – ان ویب سائٹس کا بنیادی مقصد دنیا کو اپنے دعوؤں کے بارے میں آگاہ رکھنا ہوتا ہے – ایسی سینکڑوں ویب سائٹس کا حالیہ سالوں میں اندراج دیکھا گیا ہے – مقامی مزاحمت کار  ماحولیات کے مسائل سے لے کر نسلی و انسانی مسائل پر مباحثے کے لئے منعقدہ بین الا قوامی اجتماعات میں بھی شرکت کرتے رہتے ہیں-
پچھلے ٣٠ سالوں میں اقوام متحدہ کے تعاون سے منعقد ہونے والے مباحثوں میں غیر سرکاری تنظیموں کی شمولیت میں ڈرامائ اضافہ بھی دیکھنے میں آیا ہے – انہیں نہ صرف شرکت کا موقع دیا جاتا ہے بلکہ ان کے اپنے طریقہ کار کے مطابق مختلف معاملات پر اخذ کیے گے ان کے تجزیوں اور نتائج پر بھی غور و فکر کیا جاتا ہے- حتیٰ کہ مقامی  باشندوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے  ورکنگ گروپ فار انڈیجینیس پاپولشن ، کے با قاعدہ سالانہ اجتماعات مزاحمت کاروں کی بڑی تعداد کے لیے پر کشش بن گئی ہیں-  اگرچہ ان اجتماعات کے کئی ایک مقاصد ہوتے ہیں ، لیکن سب سے زیادہ اہمیت  باہمی رابطے کے بین الا قوامی    موقع کو دیا جاتا ہے

(جاری ہے …..)

علیحدگی پسند تحریکیں اور بیرونی امداد کی اہمیت – حصّہ ٤

In BLA, bnf, bra, gurriella warfare, war game on January 11, 2011 at 1:11 am

علیحدگی پسند تحریکیں اور بیرونی امداد کی اہمیت – حصّہ ٤
تحریر نواز بگٹی
الجھن
اس بحث میں یہ  ثابت کرنے کی کوشش کی جاۓ گی کہ ضروری نہیں عالمگیر توجہ حاصل کرنے والی تحریکیں بین الا قوامی برائیوں پر فتح حاصل کر لیں – اگرچہ اس کے امکانات ضرور ہیں ، اس کی وضاحت مرحلہ وار کی جا سکتی ہے

تشہیری مہم کی اہمیت کے بحث سے  سےامداد کے بنیادی پیمانے  کی نفی ہوتی ہے – یعنی یہ کہنا غلط ہو گا کہ  ” بری طرح سے مشکلات کے شکار ہی زیادہ سے زیادہ امداد کے مستحق ہیں ”  – ہر مزاحمتی تحریک اپنے آپ کو دنیا کی توجہ کا مستحق سمجھتی ہے ،  چاہے اسے حکومت کی جانب سے کشت و خون کا سامنا ہو یا پھر سیاسی غیر برابری کا – کسی حد تک ظلم و جبر اور بیرونی امداد کے اپیل میں معقول تناسب ہونا ضروری ہے –  باوجود منکسرانہ درخواستوں کے ، کئی دہائیوں سے جاری جنوبی ایشیاء کی مزاحمتی تحریکیں دنیا کی خاطر خواہ توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہیں، حالانکہ یہاں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو معمول بنایا گیا ہے-یہاں یہ وضاحت کرنا ضروری ہے کہ جب ہم کسی خاص تحریک پر عالمی اثرات کے نا کافی ہونے کی بات کرتے ہیں تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دنیا کے سکڑنے یا ایک عالمی قصبے میں تبدیلی کا نام نہاد تصور بلکل غلط ہے – کیونکہ مذکورہ تحریک بھی تو آخر اسی دنیا کے کسی حصّے میں انسانوں پر ہونے والے جبر کے خلاف نبرد آزما ہوتی ہے – شاید  معاشی مربوطی  ، ٹیکنالوجی کی ترقی ، اور نشریاتی اداروں کی بڑھتی ہوئی مداخلت بھی اس کی کوئی قابل قبول توجیہ پیش نہ کر سکے کہ آخر ایک ہی خطّے میں ایک جیسی قوتوں سے نبرد آزما ، ایک سی مقاصد لئے مختلف تحریکوں کی عالمی پزیرائی میں  برتے جانے  والے امتیاز کی وجہ کیا ہے – انٹرنیٹ پر اگر تھوڑی سی بھی نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں برما، میکسیکو ، ایتھوپیا ، چین ، انڈیا ، پاکستان سمیت درجنوں آزادی کی تحریکیں سرگرم ہیں –  اگر ماحولیات کے میدان میں دیکھیں تو بلا مبالغہ  لا تعداد تحریکیں ملیں گی ، کچھ تو اپنی ویب سائٹ بھی رکھتی ہیں لیکن زیادہ تر انٹرنیٹ کی غیر مرئی دنیا میں اپنی جگہ بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں- لیکن اگر اقوام عالم کی کسی منظم پلیٹ فارم پر نظر ڈالیں تو انکی نگاہوں کا توجہ صرف چند ایک تحریکیں ہی حاصل کر پائی ہیں

جدید ٹیکنالوجی نے اگرچہ عالمی سیاست اور طاقت کے نظریے میں تبدیلی لانے کی کوشش ضرور کی ہے لیکن اقوام عالم کے مفادات کو عمومی رنگ دینے میں کسی طور کامیاب نظر نہیں آتی- بلکل اسی طرح اس ٹیکنالوجی کی بدولت اخلاقیات عالم ،عالمگیر سوچ ، اور عالمگیر فکر بیداری  کے کئی ایک دعویدار ابھرے ہیں-عالمگیر سوچ کا تقاضا ہے کہ ہم سب کا  تعلق اسی  دنیا سے ہے ، اور دنیا بھر میں پایا جانے والا مد و جزر ہم سب کو  متاثر کرتا ہے –  اگرچہ قابل تحسین تصور ہے ، لیکن حقیقت میں ایسا ہونا نہ صرف انتہائی مشکل بلکہ نا ممکن ہے -دنیا بھر میں چاروں طرف پھیلے مسائل کا انبار اتنا بڑا ہے کہ پرخلوص و دیانتدار اداروں / غیر ریاستی تنظیموں کو کام کے لئے درست انتخاب کا عمل گڑ بڑا دیتا ہے  – جن عمائدین کی نظر میں ان غیر سرکاری تنظیموں کی بنیاد عظیم اخلاقیات پر مبنی ہے، وہ بھی یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آخر یہ تنظیمیں اپنے کام کی راہوں کا تعین کن بنیادوں پر کرتی ہیں – آخر کونسا پیمانہ ہے جسے استعمال کرتے ہوۓ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ کس خطے میں ، کس مخلوق / تحریک کی مدد کی جاۓ – بقول انکےغیر سرکاری فلاحی تنظیموں کے کام میں بنیادی اصول انسانی حقوق ہی ہیں ، مجموعی طور پر یہ جن مسائل کو اجاگر کرتے ہیں ، یا جن تحریکوں کی مدد کرتے ہیں ، ان سب کا بنیادی نقطہ انسانی حقوق کی حفاظت ہی ہوتا ہے – انکے خیال میں کسی بھی تنازع کے بارے میں پہلے سے حاصل شدہ جامع معلومات کا بھی کسی حد تک دخل ہوتا ہے – اور وسائل کی کمی کو جواز بنا کر اپنے اس رویے کو منصفانہ اور جائز قرار دیتے ہیں

زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ عالمی سطح پر ابھرنے والے کچھ نۓ اداکاروں کی جانب سے ان مسائل کو دانستہ غیر اہم ظاہر  کرنے کی کوشش کی جاتی ہے –  اوران کا کہنا غلط بھی نہیں ہے ، اپنے آخری تجزیے میں  بی-بی-سی- کے کسی پروڈیوسر یا ایمنسٹی انٹر نیشنل کے کسی مینیجر کے لئے کوئی مشکل نہیں کہ وہ دنیا میں برائی کے دلدل اور کسی تحریک کی نامور شخصیت میں امتیاز برت سکیں ، لیکن صرف ان دو اہم پہلؤوں پر تمام تر توجہ مرکوز کرنے سے حکمت عملی ، اور منصوبہ بندی جیسے انتہائی اہم پہلؤوں کو دانستہ صرف نظر کیا جاتا ہے – ایسی کوئی  بھی مشق ، مذکورہ پروڈیوسر / مینیجرکی جانب سے  دانستہ طور پر اپنی صفوں میں مزاحمت کار کے کردار کو ثانوی بنا کر پیش کرنے کی سعی، اور دبانے کی کوشش سمجھی جا سکتی ہے –  اس طرح کی کردار نگاری سے متاثر ہو کر کوئی بھی اچھی فلاحی تنظیم اگر کچھ بہت اچھا بھی کر لے توصرف  مزاحمت کار کی تصویر کو ہی اپنی تشہیری مہم کا حصّہ بنا لے گی – اور جو اس کا بد ترین اثر ہو سکتا ہے وہ یہ کہ مزاحمت کار کو کسی بھی تیسرے فریق کی جانب سے وسائل کا منتظر ایک اور فقیر سمجھ کر نظر انداز کیا جاۓ(یہ سودا کتنا مہنگا ہے ذرا چشم تصور سے دیکھیے گا ) – تا ہم تحریکیں اپنے بیرونی وسائل کو استعمال کرتے ہوۓ زیادہ موثر انداز میں اپنے لئے امداد کی راہ ہموار کر سکتی ہیں – مزاحمت کاروں کی کوشش ہوتی ہے کہ میڈیا ، این-جی-اوز اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو متاثر کر سکیں ، لیکن اس راہ میں وو اپنے مخالفین سے زیادہ کامیابی نہیں حاصل کر سکتے- کیونکہ غاصب طاقتوں کو دستیاب  نسبتاً کئی گنا زیادہ  مالی وسائل انھیں دنیا کی بہترین رابطے کی مشینری تک رسائی کا موقع فراہم کرتے ہیں – ایسے میں اگر کچھ مزاحمت کار کے کام آ سکتا ہے تو وہ ہے اس کا نہ ٹوٹنے والا عزم ، اور آگے بڑھنے کا اس کا مصّمم ارادہ

بین الا قوامی امداد کے صرف ترسیل کے رخ پر توجہ مرکوز کر کے کسی بھی منڈی کے ایک بنیادی جز ” مسابقت ”  کونظر انداز کرنا بھی کسی طور درست نہیں ہوگا – کسی بھی مزاحمتی تحریک کو اپنی ہی طرح کی دوسری تحریکوں کی جانب سے ، ایک سی ضروریات ، ایک سے آیجینڈہ، اور ایک سی درخواستوں کی بنا پر سخت ترین مسابقت کا سامنا ہوتا ہے – آج کل کی مہذب عالمی سماج کے دعوے اپنی جگہ ، لیکن اکثریت کے لئے آج بھی وہی دراوڑی دور ہے کہ جس میں طاقتور کی فلاح اور کمزوروں کی بربادی سماجی بنیاد ہوا کرتی تھی -ایک وقت میں، ایک مقصد کے لیے  صرف چند ایک مزاحمتی تحریکوں کے لئے وسائل کی دستیابی ممکن ہوتی ہے – حالات کی ستم ظریفی دیکھیے کہ غاصبوں سے نبرد آزما طاقتیں ، اقوام عالم کی ہمدردیوں اور اپنے لیے وسائل و مراعات کے حصول میں ،ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہوتے ہیں  -ہر ایک کی کوشش ہوتی ہے خود کو اور اپنے مقاصد کو دوسرے سے برتر ثابت کرے

 

(جاری ہے……….)

 

علیحدگی پسند تحریکیں اور بیرونی امداد کی اہمیت – حصّہ ٣

In Baloch Freedom movement, BLA, bnf, bra, gurriella warfare, war game on January 10, 2011 at 9:55 pm

علیحدگی پسند تحریکیں اور بیرونی امداد کی اہمیت – حصّہ ٣

تحریر نواز بگٹی

انتہائی خطرناک ہونے کے باوجود طرفین کی کوشش ہوتی ہے کہ عالمی راۓ عامہ کو اپنے لئے ہموار کرنے اور ہمدردیاں حاصل کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جائیں – اس تحریری سسلسلے میں ہماری کوشش ہو گی کہ ان تمام اسباب پر غور کیا جاۓ جن کی وجہ سے مخصوص مزاحمتی تحریکیں تو اقوام عالم کے ضمیر کو جھنجوڑنے میں کامیاب ہوتی ہیں ، جب کہ دیگر تحریکیں ایسا کرنے میں ناکام رہتی ہیں – مجھے یہ لکھتے ہوے بھی کوئی جھجھک محسوس نہیں ہوتا  کہ تحریکوں کی انفرادی کاروائیاں ،جدید تقاضوں سے ہم آہنگی اور ان  کی صلاحیتیں بھی اس سارے تناظر میں اہم کردار ادا کرتی ہیں

اکثر تحریکوں کی غیر معمولی پزیرائی ان کے زیر اثر علاقے کی بین الا قوامی اہمیت ، یا پھر کسی بھی بڑے نشریاتی ادارے کی غیر معمولی دلچسپی کے سبب  بھی ہوتی ہے اس تحریر میں مقامی تنظیم کو مرکزی سطح پر رکھتے ہوے ،عالمی لاپرواہی سے مشتعل ہو کر ، اپنی جانب متوجہ کرنے کی غرض سے انکے  اختیار کردہ مشکل اور  پر خطر طریقہ کار پر بھی نظر ڈالی جاۓ گی

کسی بھی تحریک کی بنیادی اور فوری ضرورت ہوتی ہے کہ اس کی آواز کو اقوام عالم غریب اور پسسے ہوۓ انسانوں کی آواز سمجھ کر سنیں – ایسا کرنے کے لئے وہ مقدور بھر کوشش کرتے ہیں کہ براہ راست توجہ حاصل کرنے اور اقوام عالم کی سرپرستی کے حصول کی خاطر  میڈیا کو توڑ کر اپنے حق میں استعمال کیا جاۓ – اسکے بعد اپنے اغراض و مقاصد کو بڑھاتے ہوۓ شدت پسندوں کی جانب سے محدود مطالبات ، صوبائی / نسلی تنازعات ، اور ایک مخصوص شناخت سامنے لے جاتے  ہیں – آج کی عالمی اخلاقیات کی منڈی میں ضروری ہے کہ مزاحمت کار اپنے ہاں کی صورت حال کی تشہیر کریں ، تنازعات کے تناظر میں اپنی جدوجہد کو جائز ثابت کریں ، اور اپنی آواز کو ایسی صورت میں ڈھالیں کہ اس کی گونج بہار کی دنیا تک کو سنائی دے – اسی تناظر میں ہی چند نقاط پر اپنی بحث کو مرکوز کرتے ہیں – – کسی بھی معروف این-جی-او کی حمایت حاصل کرنا نہ تو آسان ہے ، نہ ہی خودکار ، بلکہ ایک مسابقتی طریقہ کار سے ہی یہ حمایت حاصل کی جا سکتی ہے ، لیکن اس طرح کی حمایت کو بلکل یقینی بھی نہیں بنایا جا سکتا – کئی ایک تحریکوں کی اپنے ہی ملک / خطے ہی  میں کسی غیر ریاستی تنظیم کے توجہ کے حصول کی کوششوں کو نا کامی کا منہ دیکھنا پڑا – تا ہم باہر بیٹھے لوگوں کو مخاطب کرنے کے لئے دھیان رکھا جاۓ کہ انھیں کوئی بنیادی معلومات حاصل نہیں ہیں -صحافی و علماء ہمیشہ ان تنازعات پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہیں جو عالمی سطح پر واضح شناخت رکھتے ہوں – یقین جانیے کے کہکشاں میں دور چمکتے ہوۓ ستاروں کی قسمت میں عمومی توجہ نہیں ہوتی – اور بدقسمت کے ہر کوشش کو نظرانداز کیا جاتا ہے – یا پھر کہا جا سکتا ہے کہ عالمی وسائل کا بھاؤ ان تھوڑے قسمت کے دہانی لوگوں کی جانب ہوتا ہے – اپنا قسمت بدلنے میں ناکام رہنے والی تحریکوں کو چاہیے کہ اپنی توانائیاں کہیں اور استعمال کریں ، کیونکہ ایسی بد قسمت مزاحمت انھیں موت کی اندوہناک گھاٹیوں میں دھکیل دے گی

امداد کی بڑھوتری اور تسلسل  کا انحصار تحریک کی ضروریات سے زیادہ اپنے ہمدردوں سے استوار رشتوں پر ہوتا ہے – امداد کی فراہمی کے تناظر میں بہت کم غیر ریاستی تنظیمیں نظر آتی ہیں جو  بلا امتیاز ، انسانی بنیادوں پر امداد فراہم کرتی ہیں ، اور کسی بھی مزاحمتی تحریک کو دوسری تحریک پر فوقیت نہیں دیتیں – چونکہ امدادی تنظیموں کے وسائل محدود ہوتے ہیں اور دنیا مسائل کی آمجگاہ بنی ہوئی ہے – ہر مزاحمتی تحریک خود کو انسانی و اخلاقی امداد کا مستحق تصور کرتی ہے ، ایسے میں ایک مسابقتی ماحول کا پیدا ہونا فطری عمل کہلاۓ گا –  اور پھر غیر ریاستی تنظیمیں کسی خاص ریاستی ضابطے میں بندھی ہوئی نہیں ہوتیں ، ان کی کچھ اپنی ترجیحات بھی ہوتی ہیں – یہ تنظیمیں امداد کی فراہمی کے وقت غیر رسمی طور پرضرورت مند تحریک سے زیادہ اپنی ترجیحات سے قریب تر تحریکوں کا انتخاب کرتی ہیں –  اس تمام تر صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوۓ کسی بھی تحریک کے لئے ضروری ہے کہ دنیا اس کی درخواستوں  کو خالص انسانی ضروریات کے تناظر میں دیکھے – اب تحریک کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے لئے عالمی برادری کی پہلی ترجیحات میں جگہ بناۓ، یعنی تحریک کو اپنی ترجیحات کی تشریح کچھ اس ادا سے کرنی ہو گی کہ اپنی بنیادی اصولوں پر سمجھوتہ کیے بغیر انہیں عالمی مفادات کی شکل میں پیش کر سکے – بظاھر سادہ نظر آنے والا یہ کام فنی اعتبار سے بہت باریکیوں کا حامل ہے ، اور ذرا سی بے احتیاطی سے غاصب کو مد مقابل تحریک کے بارے میں مہلک  پروپیگنڈہ  کا جواز فراہم کر سکتا ہے
کسی بھی غیر ریاستی ، یا غیر رسمی تنظیم سے امداد کا حصول چونکہ اخلاقی منڈی میں مسابقتی صلاحیتوں پر منحصر ہے ، ایسے میں کسی بھی تحریک کا معاشی ، ثقافتی ، اور تنظیمی ڈھانچہ بہت اہمیت رکھتے ہیں –  جو تحریکیں ان معاملات پر  خصوصی توجہ دیتی ہیں انکے لئے اقوام عالم میں جگہ بنانا نسبتاً آسان ہوتا ہے – کسی بھی تحریک کے لئے ضروری ہے کہ وہ اقوام عالم سے مخاطب ہوتے وقت اپنے لیے مخصوص امداد کی درخواست  اور اس امداد کے استعمال کا واضح طریقہ کار نمایاں کرنے کے قابل ہو – کوئی بھی درخواست ، ضروریات و اہداف کی واضح اور جامع  نشاندہی کے بغیر قابل پزیرائی نہیں ہوتی – ان تمام خصوصیات کے باوجود اگر تنظیمی ڈھانچے میں کوئی جھول نظر آ جاۓ تو یقیناً ایسی تحریک کے لئے بیرونی امداد کا حصول جوے شیر لانے کے مترادف ہو گا – ان تمام لوازمات کو نظر انداز کرنے والی تحریکیں ، سیاسی ، سماجی اور مالی اعتبار سے نہ صرف تنہا ہوتی ہیں بلکہ انھیں اپنی تمام تر نیک نیتی کے باوجود دیوالیے پن کا خطرہ لاحق ہو جاتا ہے

– تنظیمی ڈھانچے کے ساتھ ساتھ اگر کوئی چیز اہم ہے تو وہ ہے تحریک کو پیش کرنے کا زاویہ – یعنی تحریک  کی مارکیٹنگ –

زیادہ تر مبصرین کا خیال ہے کہ ترقی یافتہ ممالک / اقوام کی امداد مظلوم و محکوم تک پہنچ کر انکی قسمت بدل دیتی ہے ،اور انکی اس راۓ سے اختلاف کی بہت کم گنجائش ہے –   لیکن یاد رہے یہ امداد خودکار طریقے سے نہیں پہنچ پاتی ، یا پھر اگر پہنچتی ہے بھی تو اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے – اس لئے ضروری ہے کہ اپنی تحریک  کے مقاصد ، اپنے لوگوں کے مسائل ، اور غاصب کے ظلم و جبر کی مناسب تشہیر کی جاۓ ، تاکہ عالمی برادری کی جانب سے بر وقت اور موزوں امداد کو یقینی بنایا جا سکے – کسی بھی تحریک کی تشہیری مہم کے دو بنیادی مقاصد ہوتے ہیں ، ایک تو اپنے معاملات کو عالمی برادری کے سامنے اجاگر کرنا ، اور دوسرے  ضروری اور بروقت امداد کا حصول
امدادی منڈی کا سب سے اہم مسلہ امداد کے اثرات کا غیر مرئی  ہونا ہے – چاہے امداد حاصل کرنے والی تحریک احسان مندی کا اظہار ہی کیوں نہ کرے – بہت سارے صحافیوں اور سکالرز کی نظر میں سرحد پار مصروفیات نظر نہ آنے والی رحمتوں کے مترادف ہوتی ہیں – غیر سرکاری تنظیمیں اثرات کے  غیر مرئی ہونے کی وجہ سے کوئی واضح امداد کرنے سے کتراتی ہیں – ایک طرف تو مقامی مزاحمت کاروں کو حاصل شدہ امداد کو اپنے مقاصد کے لئے طے شدہ طریقہ کار کے مطابق استعمال کرنا ہوتا ہے – دوسری جانب کسی بھی غیر ریاستی فلاحی تنظیم کے لئے کسی خاص مزاحمتی تحریک کی مدد کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے – اس لئے تمام تر امداد خفیہ / یا مہارت سے ترتیب دی ہوئی انسانی ضروریات کے پیش نظر دی جاتی ہے – خفیہ امداد چونکہ مسلسل و مربوط نہیں ہو سکتی لہذا ہمیشہ اس کے ختم ہونے کا خطرہ موجود ہوتا ہے – خاص طور پر عالمگیر توجہ پانے کے بعد اگر مزاحمت کار غاصب کے خلاف اپنی کاروائیوں میں زیادہ شدت لے آتے ہیں ، اور ایسے موقعے پر اگر امدادی سلسلہ منقطع ہو جاۓ تو تحریک کی زندگی کے سامنے سوالیہ نشان لگ سکتا ہے – اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ خفیہ امداد کی کتنی بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے – اس تمام صورت حال کے لئے تحریک کو نہ صرف تیار رہنا پڑتا ہے بلکہ متبادل منصوبہ بھی تیار رکھنا پڑتا ہے

(جاری ہے……..)

علیحدگی پسند تحریکیں اور بیرونی امداد کی اہمیت- حصّہ ٢

In BLA, bnf, bra, gurriella warfare, war game on January 10, 2011 at 7:11 pm

علیحدگی پسند تحریکیں اور بیرونی امداد کی اہمیت- حصّہ ٢

تحریر نواز بگٹی

آخرایسا کیا ہے جو چند ایک مزاحمتی تحریکوں کے بارے میں  طاقتور عالمی راۓ عامہ کومتاثر کرتا ہے ؟ بنیادی وجوہات کونسی ہیں کہ چند مظلوم اقوام ہی سکڑتی دنیا کی توجہ حاصل کر کے فائدہ اٹھا پاتے ہیں؟

سرد جنگ کے خاتمے کے بعد ، اقوام عالم نے اپنے سیاسی مفادات کے پیش نظر دنیا بھر میں مختلف غیر سرکاری تنظیمیں قائم کر رکھی ہیں ، تاکہ وہاں موجود سماجی سرشتوں سے باقاعدہ اور مسلسل روابط قائم رکھ سکیں – ایک غالب اکثریت کا خیال ہے کہ بڑھتے ہوے رابطوں نے بین الا قوامی  سیاست کا مزاج ہی بدل کر رکھ دیا-بین الا قوامی  رشتوں میں ، انتشار ، ذاتی مفادات ، اور مسابقت کی جگہ ، باہمی تعاون، اور ہمدردی نے لے لی –  اس بلکل نۓ بڑھتے ہوے رجحان کے تناظر میں نشریاتی اداروں کا کردار ، مفادات کی نگرانی ، اور سماجی طبقوں میں ممکنہ انتشار کا وجہ بننے والےغم و غصے کی نشاندہی مقرر ہوا – جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ابھرتے ہوے تنازعات کی قبل از وقت نشاندہی ممکن ہوئی – اور مہربان تنظیمیں کسی ذاتی مفاد کے بغیر ضروری امداد کے ساتھ میدان عمل میں کود جاتی ہیں – اس نئی اور بظاھر بہادر نظر آنے والی اس دنیا کے دو بنیادی اجزاء ، غیر ریاستی تنظیمیں (این-جی-اوز) ، غیر سرکاری سطح پر قائم، بین الا قوامی سرحدوں کا لحاظ کیے بغیر ، یھ تنظیمیں سیاسی ، سماجی ، اور ثقافتی میدانوں میں سرگرم عمل رہتی ہیں – یا پھر ٹرانس نیشنل ایڈوکیسی نیٹ ورکس  ، یعنی این-جی-اوز، صحافیوں ، اور افسر شاہی کا نا پختہ رسمی اتحاد، جن کا مقصد مشترکہ مفادات کے حصول کی خاطر معلومات اوردستیاب وسائل کا باہمی تبادلہ ہوتا ہے  – یہ دونوں اجزاء باہم مل کر عالمی اخلاقیات کے طاقتور  نقیب کا کردار ادا کرتے ہیں – کچھ سکالرز ان دو قوتوں کی حالیہ پھیلاؤ کوانسانوں کی حاکمیت کے نظام میں  کثیر الا قومی  جمہوریت    ، اور انسانی آزادی کا نام دیتے ہیں – ان خیالات کی روشنی میں ریاستی حدود کے ضابطوں سے بالا تر ، یہ قوتیں غیر اثر پذیر یا جابر حکومتوں کے خلاف سماج کی بلا امتیاز مدد کا کار ہاۓے نمایاں بھی سر انجام دیتے ہیں – یہی وجہ ہے کہ متشدد تحریکیں سرحدوں کے آر پار  اپنے حق میں بلند آوازیں پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں – ایسے حالات میں این-جی-اوز- اور ٹی-اے- اینز ، فروعی مفادات سے بالا تر ، دور رس انسانی خدمت کی راہ میں ، اپنی رضاکارانہ خدمات پیش کرتی ہیں –  انسانی امداد ، نا انصافیوں کی تشہیر اور غاصب پر دباؤ کے پیش نظر حقیقی تحریکیں عالمی برادری کی خاطر خواہ توجہ حاصل کر لیتےہیں

ترقی یافتہ دنیا کے کسی کارکن کے نقطہء نگاہ سے شاید یہ سب کافی ہو ، لیکن ابھی درجنوں قابل توجہ اسباب و نقاط رہتے ہیں – کئی ایک نقاط غیر یققنی صورت حال کی بنا پر توجہ طلب ہیں – ترقی پذیر ممالک کی سماجی تحریکیں ، کہ جن کے لئے بین الا قوامی روابط صرف ایک آواز ، ایک مشغلہ ، یا ایک پیشے سے کہیں زیادہ اہم ہیں ، نئی بین الا قوامی  سیاسیات کے بارے میں قدرے مختلف احساسات رکھتی ہیں – جدید ٹیکنالوجی ، اداکار، اور ادارے بلند و بانگ دعوؤں کے مقابلے میں  عملی اقدامات کے حوالے سے اچھی شہرت نہیں رکھتے – جسے کہ انڈونیشیا کے مغربی پاپوا کی آزادی کی تحریک کے رہنما موسیٰ ویرر اپنے ایک ویب سائٹ پر کچھ یوں اظہار خیال کرتے ہیں ” ہم ٣٠ سال سے بھی زائد عرصے تک جدو جہد کرتے رہے ، لیکن دنیا نے ہماری جانب کوئی توجہ نہیں دی ” – یا پھر سوڈان کے جنگ زدہ علاقوں سے آے ہوے ایک مہاجرشکوہ کناں ہیں ” آخر اتنے امریکی سیل اور وہیل جیسی مچھلیوں کے بچانے میں جتنی سرگرمی دکھاتے ہیں ہم ایسے انسانوں کے لئے کیوں نہیں ” – در حقیقت یہ سب صرف عالمی شہرت کے حصول کی بازی نہیں، بلکہ  امدادی حلقوں سے دور ،بہت سارے مزاحمت کاروں کے لئے یقیناً زندگی اور موت کا سوال ہے – غیر ریاستی تنظیمیں یعنی این-جی-اوز-  نہ صرف کم شہرت یافتہ تنازعات کے بارے میں عالمی شعور کو بیدار کر سکتی ہیں ،  مشکلات میں گھری تحریکوں کے لئے مالی امداد کے دروازے کھول سکتی ہیں ، بلکہ غاصب حکومتوں پر دباؤ بھی ڈال سکتی ہیں – واضح طور پر بیرونی قوتوں کے ملوث ہونے سےنہ صرف  حکومتوں کی تشدد  اور طاقت کے استعمال کی پالیسی میں فرق آ جاتی ہے ، بلکہ جائز مزاحمت کو مضبوط کرنے کے لئے ،معاشی  و طبی امداد ، سامان زندگی ، آلات حرب ، اور علم و ہنرکے ساتھ ساتھ نفسیاتی برتری کا جواز بھی بنتی ہے – کم از کم تحریک اپنے آپ کو تنہا نہیں سمجھتی ، یا پھر کہ سکتے ہیں کہ تحریک کے لئے یہ خیال ہی اطمینان بخش ہوتا ہے کہ دنیا ان کے لئے فکر مند ہے ، یا پھر کم از  کم اتنا  اطمینان ہو ہی جاتا ہے کہ ایک پر مشقت تحریک رائیگاں نہیں جاۓ گی

(جاری ہے …….)

 

علیحدگی پسند تحریکیں اور بیرونی امداد کی اہمیت- حصّہ ١

In BLA, gurriella warfare, war game on January 10, 2011 at 2:00 pm

علیحدگی پسند تحریکیں اور بیرونی امداد کی اہمیت- حصّہ ١

تحریر نواز بگٹی

کئی دہائیوں سے جاری تبت کی خود مختاری کی تحریک نے دنیا بھر سے لاکھوں لوگوں کی توجہ حاصل کی – انسانیت ، روحانیت ، اور ثقافتی درخواستوں سے متاثر ہو کر ، انسانی  حقوق کی عالمی تنظیموں کی جانب سے اخلاقی، مادی  و مالی امداد کے علاوہ بڑے تعداد میں انفرادی  حیثیت سے بھی وافر امداد تبت کے تحریک کو مہیا ہوئی – جسکے نتیجے میں تبت کو خودمختای نصیب ہوئی -تبت کے ٥٠ لاکھ انسانوں کی خودمختاری کی مہم عالمی سطح پر انتہائی کامیاب جانی جاتی ہے ،  حالانکہ تبتی تحریک کے مقابلے میں کئی گنا طاقتور ملک چین ٥٠ سال تک تبتی تحریک کو دبانے کی سر توڑ کوشش کرتا ر ہا

یکن تبتی تحریک کا نور بہت کم دوسری تحریکوں کو منور کر سکا ہے ، دنیا میں بہت کم کسی کو معلوم ہو گا کہ چین کی سرحد سے کئی اور چھوٹی اقوام کی سرحدیں بھی ملتی ہیں ،جیسے کہ منگول ، جنگ ، یی، اور ہو وغیرہ –  چین کی شمال مغربی سرحد پر بسنے والے یوغور قبائل کی آبادی  تقریباً  ٧٠ لاکھ نفوس پر مشتمل ہو گی – چین کی بالا دستی کے خلاف صدیوں سے نبرد آزما اسس قوم نے اگرچہ بیسویں صدی میں تھوڑے سے عرصے کے لئے  ایک آدھ بار آزادی حاصل کرنے میں کامیابی بھی حاصل کی ، اور پھر بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر پھر سے چین کے زیردست ہو گۓ- تبتیوں کی طرح آج یوغور قبائل کو بھی مرکزی حکومت کے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ( جسے چین کی مرکزی حکومت ترقی ، اور دہشت گردی مخالف اقدامات کا نام دیتی ہے ) چین کی اکثریتی ہان قبیلے کے بڑی تعداد میں آمد کے بعد اپنی ہی سرزمیں پر  نسلی اقلیت میں تبدیل ہونے کے خدشے کا سامنا ہے – اگر تبت کے پیشوا دلائی لامہ کہتے ہیں کہ تبتیوں کے ثقافت کو معدوم ہونے کا خطرہ ہے ، تو یوغوروں  کو  بھی یقیناً اسی طرح کے خطرات کا سامنا ہے – تبتیوں ہی کی مانند یوغور بھی چین کی حاکمیت کے خلاف مقامی اور عالمی سطح پر احتجاج کرتے رہے ہیں ، جو کہ انہیں چین کی نظروں میں خطرناک علیحدگی پسند ثابت کرتا ہے – چونکہ یوغور ، تبتیوں کے برعکس  اپنی سرحدوں  سے باہر ، اپنے لئے ایسی کسی ہمدردی کو منظم کرنے میں ناکام رہے – ہالی ووڈ کے کسی مشہور فلمی ستارے نے یوغور قبائل کے لئے آج تک کوئی بھاری امدادی چیک جاری نہیں کیا ، نہ ہی کوئی یوغور رہنما کسی امریکی صدر سے ملاقات کر پایا ہے ، نہ کسی یوغور کو آج تک کسی نوبل امن انعام کے لئے نامزدگی نصیب ہو سکی ہے – بیرونی اتحادیوں کے تلاش میں تبتی اور یوغور کوششوں کو ایک دوسرے سے انفرادیت کی حد تک الگ کیا جا سکتا ہے – دنیا بھر میں طاقتور قابضین سے نبرد آزما ، مسلح یا غیر مسلح ہر دو طرح کی مزاحمتی تحریکیں     اپنے لیے اپنی سرحدوں کے باہر اتحادی و ہمدرد عناصر کی کھوج میں رہتے ہیں – ایسے ہمدرد جو ،   عالمی تنظیموں کی شکل میں ہوں یا  غیر حکومتی تنظیموں کی شکل میں ، نشریاتی اداروں کی شکل میں ہوں یا بھاری عوامی ہمدردی ہو – اگرچہ یوغور تحریک سے ہمدردی کے بھی کئی دعویدار ہیں لیکن بہت کم ہی کوئی اسس طرح کی مدد کرتا ہوگا جیسی بیرونی مدد تبت کے تحریک کو حاصل رہی ہے

جیسے کہ آج تقریباً ساری دنیا مشرقی تیمور کی تحریک کے بارے میں جانتی ہے  ، لیکن اسی انڈونیشیا میں جاری مغربی پاپوا کی تحریک ابھی تک کسی خاص پزیرائی سے محروم ہی رہی ہے – اسی طرح اگر ماحولیاتی  تنازعات کو دیکھا جے تو سواۓ چند ایک کے ،( جیسے کہ ، برازیل کے ربڑ ٹپکانے والوں کی طرف سے امیزون کے جنگلات کو بچانے کی کوششیں ، چین کے قوی الحبثہ تین ڈیمز کا تنازعہ   ، یا چاڈ – کیمرون پائپ لائن کا تنازعہ) سارے معاملات ( جیسے کہ ہندوستان کی ٹھری ڈیم ، گھانا کے جنگلات کی کٹائی ، تھائی – ملایشیا گیس پائپ لائن وغیرہ )  دنیا کی نظروں سے یا تو اوجھل رہے ہیں یا انہیں خاطر خواہ پزیرائی نہیں مل سکی

نہ صرف یہی بلکہ ہر طرح کی تنازعات ، جیسے لاطینی امریکا میں بے زمینوں کا تنازعہ، جنوبی ایشیا میں نچلی ذاتوں کا تنازعہ وغیرہ کی بھی دنیا کوئی خاص پرواہ نہیں کرتی -کیا وجہ ہے کہ چند ایک تحریکیں ہی دنیا بھر میں بسنے والی اقوام کی پزیرائی حاصل کر پاتی ہیں اورنسبتاً  ان سے زیادہ شدید تنازعات کے سلسلے میں چلنے والی تحریکیں  نہ صرف غیر واضح بلکہ تنہائی کا شکار نظر آتی ہیں ?آخرایسا کیا ہے جو چند ایک مزاحمتی تحریکوں کے بارے میں  طاقتور عالمی راۓ عامہ کومتاثر کرتا ہے ؟ بنیادی وجوہات کونسی ہیں کہ چند مظلوم اقوام ہی سکڑتی دنیا کی توجہ حاصل کر کے فائدہ اٹھا پاتے ہیں؟
(جاری ہے ……..)

انقلابی تحریک -چھاپہ مار جنگ ایک امتیازی حکمت عملی

In Baloch Freedom movement, BLA on January 1, 2011 at 8:53 pm

انقلابی تحریک -چھاپہ مار جنگ ایک امتیازی حکمت عملی

تحریر نواز بگٹی

اگر مجموعی طور پر دیکھا جاۓ تو انقلابی تحریکیں حالت جنگ میں بھی مروجہ جنگی حکمت عملیوں سے مختلف و ممتاز حثیت رکھتی ہیں . تحریک چاہے بہت ہی چھوٹے پیمانے پر ہو یا وسیع  قومی تحریک کی شکل اختیار کر جاۓ اس کی کاروائیوں اور روایتی جنگ میں اتنا ہی فرق ہو گا جتنا کہ روایتی اور نیوکلیائی جنگ میں ہو سکتا ہے – روایتی جنگ کے مقابلے میں کم از کم چار  بنیادی نقاط ایسے ہیں جو اس جنگ کو امتیازی حیثیت دیتی ہیں –

– طاقت کے مرکز کا ایک ہونا

انقلابی تحریکوں کی پشت پرہمیشہ  ایک مضبوط سیاسی ڈھانچہ اور وسیع عوامی حمایت  کار فرما  ہوتی ہے ، اگر بوجوہ تحریک عوامی مقبولیت کھو دیتی ہے یا تحریک کی عوامی پذیرائی میں کمی آتی ہے تو بہت حد تک ممکن ہے کہ تحریک کی عسکری سپاہ خود کو جارح و قابض افواج کی نظروں سے نہ چھپا پائیں ، جو کہ تباہی اور تحریک کی یقینی ناکامی پر منتج ہو سکتا ہے -عوامی حمایت بہت واضح بھی ہو سکتی ہے اور اگر قابض افواج کی جارحیت و بر بریت وحشیانہ ہو تو تحریک  کے لئے عوام کی خاموشی  اور غیر جانبداری بھی حمایت ہی تصور کی جاتی ہے –
یہی عوامی مقبولیت ہی در اصل تحریک کو ایک مضبوط سیاسی ڈھانچے کی بنیادیں فراہم کرتی ہے کوئی بھی تحریک سیاسی بازو کے بغیر لولی لنگڑی تصور کی جاتی ہے -( اور لولے لنگڑوں پر  ترس تو کھایا جا سکتا ہے لیکن قوموں کی تقدیر کے فیصلوں کا اختیار انھیں نہیں دیا جا سکتا )-سیاسی بازو سے محرومی کا مطلب ہے تحریک کا  سراغرسانی جیسے  جنگ کے انتہائی اہم پہلو سے محروم ہو جانا ،جس کا مطلب ہے  نہ صرف دشمن کی چالوں سے بے خبری بلکہ موثر حکمت عملی سے بھی محروم ہونا – اس پر طرہ یہ کہ جو سیاسی ڈھانچہ تحریک کے لیۓ افرادی قوت کا بندوبست کرنے کے حوالے سے اہم ہوتی ہے اس کے بغیر تحریک بجاۓ پھیلنے کے مزید سکڑ جاتی ہے -تحریک کو مادی وسائل کے بارے میں بھی بلکل اسی طرح کی مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے – یعنی مضبوط و مربوط سیاسی ڈھانچے کے بغیر تحریک جنگجووں کے ایک جتھے سے زیادہ اہمیت اختیار ہی نہیں کر سکتی ، اور کسی بھی منظم قابض طاقت کے لیۓ چند جنگجوؤں کو کچلنا چنداں پریشانی کا سبب نہیں ہو سکتا –
ایک طرف تو ثابت ہوتا ہے کہ انقلابی تحریکوں کی طاقت کا اصل منبع عوام ہی ہیں ، جبکہ دوسری طرف قابض افواج  کو بھی اپنے اقتدار ا علی  کو قائم رکھنے اور ایک طاقتور تحریک آزادی کا مقابلہ کرنے کے لیۓ اسی عوامی طاقت سے رجوع کرنا پڑتا ہے – چونکہ مد مقابل تحریک آزادی کو مادی ، طبّی ، عسکری اور افرادی وسائل کا سرچشمہ یہی عوام ہی ہیں لہذا قابض افواج  لالچ ،دھونس ، دھمکی غرضیکہ ہر طریقہ آزمائیں گے تا کہ عوام کو نہ صرف عسکریت پسندوں کی مدد کرنے  سے باز رکھا جاۓ بلکہ انہیں تحریک کے خلاف مبینہ طور پر استعمال بھی کیا جا سکے – قابضین کے لیۓ عوام کا سب سے بہترین ا ستعمال تحریک کے خلاف سراغرسانی کی صورت میں کیا جاتا ہے –
طویل المدت اقتدار اور طاقتور مزاحمتی تحریک سے نمٹنے کے لیۓ عوامی حمایت کا حصول قابض افواج کے لیۓ بھی آکسیجن کا درجہ رکھتی ہے –
غرضیکہ روایتی  جنگوں میں طاقت کے مختلف مراکز کے برعکس انقلابی جدو جہد آزادی میں مد مقابل افواج کی حقیقی طاقت کا مرکز ایک یعنی عوام ہی ہوتے ہیں –
روایتی جنگوں میں جانبین کی کوشش ہوتی ہے کہ مخالف کے طاقت کے مرکز کو تباہی سے دو چار کیا جاۓ اور اپنے مرکز کی حفاظت کی جاۓ ، لیکن موجودہ صورت حال میں طاقت کے مراکز کی غیر مرئی اور نا قابل تفریق تصور سے طرفین کو مروجہ جنگی حکمت عملی بجاۓ کوئی فائدہ پہنچانے کے نقصان پہنچاتی ہے -اور یہی صورت حال  تحریک کی قیادت کو غداروں کا تعین کرنے ، اور ان کے لیۓ سزائیں تجویز کرنے میں بے حد احتیاط کا  متقاضی ہوتا ہے -ذرا سی کوتاہی خدا نخواستہ کسی بڑے بحران کو جنم دے سکتی ہے

عسکریت پسند میدان جنگ میں ہار کر بھی اصل معرکہ نہیں ہارتا

انقلابی تحریکوں کی ایک دوسری امتیازی وصف شاید یہ بھی ہے کہ وہ معرکہ ہار کر بھی شکست کی ہزیمت نہیں اٹھاتے – تحریک آزادی کی عسکری قیادت اپنی محدود افرادی قوت کے سبب کسی بھی ایسی لڑائی سے گریز کرتی ہے جو کسی فیصلہ کن  شکست کا سبب بن سکے – گوریلا حکمت عملی کی وجہ سے بیک وقت کئی چھوٹی چھوٹی لڑائیوں کے محاذ تحریک کو ایک شکست کے بدلے کئی جیت کا تفاخر عطا کرتے ہیں . جب کہ اس کے برعکس قابض افواج کا بھاری بھرکم وجود  ، بھاری و خطرناک اسلحہ ، تمام ضروری تربیت سے لیس سپاہ اور ان کے مقابلے میں مٹھی بھر نو جوانوں سے شکست  کو عسکری میدان کا بد نما داغ بنا دیتی ہیں  یوں عوامی حمایت یافتہ تحریک آزادی اپنے حریفوں کے مقابلے میں اخلاقی فتوحات سے سرشار نۓ معرکوں کی تیاری میں مصروف ہوتی ہے ، جب کہ دشمن زخم چاٹتا ، اپنے سپاہ کی نفسیاتی تربیت کر رہا ہوتا ہے -گوریلا قوت کی موجودگی ، اور اس کی بقا ہی دراصل قابضین کی شکست ہوتی ہے

وقت کا تباہ کن ہتھیار

روایتی جنگوں میں فریقین کی کوشش ہوتی ہے کہ کم سے کم وقت میں فیصلہ کن فتح حاصل کیا جاۓ ، لیکن اس کے بلکل بر عکس  چھاپہ مار جنگ میں عسکریت پسند  جنگ  کو انتہائی طویل اور صبر آزما بنا دیتے ہیں ، ان کے پاس دوسری عسکری لوازمات میں کمی کے برعکس وقت وافر سے بھی کہیں زیادہ ہوتا ہے – چھاپہ ماروں کو فتح سے کہیں زیادہ حریف کی شکست سے دلچسپی ہوتی ہے اور کبھی کبھار تو یوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ وہ مد مقابل کی سسکتی ہوئی صورت حال سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں –  چونکہ قابضین کی با قاعدہ افواج کی تربیت بے بنیاد جذباتیت پر ہوتی ہے ، ان کے سر پر بر تری کا بھوت سوار ہوتا ہے ، وہ اپنی فتح میں چند لمحوں کی تاخیر بھی برداشت کرنے کے قائل نہیں ہوتے سو بے مقصد انتظار سے اکتاہٹ کا شکار ہو کر اپنی شکست کی جانب بڑھ رہے ہوتے ہیں

رسد کی الٹی گنگا

روایتی جنگوں میں ہمیشہ طرفین کو رسد ان کی پشت پر موجود رسد کے مراکز سے حاصل ہوتی  ہے ، ان کے لیۓ آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ اپنے رسد کے ذرا یع اور راستوں کی حفاظت  بھی اتنی ہی اہم ہوتی ہے . لیکن اس کے برعکس تحریک آزادی کے چھاپہ ماروں کو رسد میدان جنگ میں موجود ان کے ہمدردوں سے ہی حاصل ہوتی ہے – ایک طرف تو وہ رسد کے  ذرا یع اور اس کی حفاظت سے بے فکر ہو جاتے ہیں تو دوسری طرف مد مقابل کے رسد کو کاٹ کر اس کے لیۓ میدان میں بقا کا سوال کھڑا کر لیتے ہیں . چونکہ چھاپہ ماروں کی رسد بہت پہلے ہی ان کے منتخب کردہ نشانے کے آس پاس پہنچ چکی ہوتی ہے لہذا قابض افواج کے لیۓ اس عسکری ساز و سامان کو استعمال کرنے سے قبل تباہ کرنا تقریباً نا ممکن بن جاتا ہے –
سواۓ چند ایک مخصوص صورتوں کے جہاں چھاپہ مار بیرونی رسد وصول کر رہے ہوں قابض افواج کی فضائی صلاحیت بھی ناکام ہو جاتی ہے

( اہل زبان نہ ہونے  اور اردو ٹائپنگ سے کم واقفیت کی بنا پر زبان و بیان اور پروف کی غلطیوں پر معذرت )

Boycott Pro-Pakistan Nawabs and Sardars : Baloch Liberation Army (Curticy Frontier India )

In Baloch Libration Army, BLA on December 28, 2010 at 11:40 pm

A senior commander of Baloch Liberation Army (BLA) in video message said that Baloch nation should abandon their personal interests and join the ranks of those who are fighting for the freedom of Balochland. He says that it is the demand of time and situation that Baloch must unite and stand against the enemy of Baloch Nation. The video has been posted on Youtube and distributed to news agencies in Balochistan.

The masked BLA commander said ” (BLA) were disappointed and surprised on how their own Baloch brothers have been brainwashed to take side of the enemy and provide them information against Baloch fighters. “They (enemies) are trying to create hurdles for us in our own homes”. Without naming anyone the BLA commander said that “These (agents) are the stooges and remainders of the British who have become so powerless that they cannot breathe before their Punjabi masters. They are killing Baloch youth to gain two time bread from themselves. Those youth have abandoned their homes and personal gains for the interest of Baloch Nation and freedom of Balochland”.

Grab from the video 

Even though the BLA has made their policy how to deal with these collaborators. The BLA commander now says “We (Baloch) should cut off all ties from these stooges of enemy and stop following them to make them realize that they are isolated and not from us”. These agents of enemy are so powerless that they can’t even raise their heads and now they are waving their tails to point the directions of liberation seeking Balochs.

The message of BLA further said that these agents are neither Nawab nor Sadar they are only stooges of enemy. “Baloch Nation must also recognize them; they hired thieves, criminal and bandits at the hands of enemy and the enemy is using them against Baloch freedom fighters to harm the Baloch Nation cause,” he said.

BLA in their message appealed the Baloch Nation to expose such people and inform Baloch political forces and the BLA about their black deeds. The collaborators do not deserve forgiveness. They should not think that they can weaken the Baloch freedom struggle by taking advantage of Baloch weaknesses. “They are not from us (Baloch) and we do not consider them as our people; they were living on the pieces of enemy and now they depend on Punjabis”. If they are being well fed by the Punjabis and cannot do anything against their master then at least they must not talk against Baloch freedom fighters; if they cannot do anything they must keep quite. “If they still do not understand then BLA knows how to punish them”.

The BLA message further said that “We (BLA) are an organization and we are taking forward a program, which is the freedom of Balochistan. BLA is not the whole Baloch nation neither do we make any such claims. We ask all Baloch political parties, and freedom loving Baloch youth to unite if they believe in the cause of liberation and follow our ideology. We should keep aside our petty tribal issues and personal interests (egoism); stand together against the common enemy of Baloch Nation. We are only Baloch and that’s what we should call ourselves if we want to progress and prosperous. It is the demand of the time and current circumstances that we should leave behind tribal interests and protect our (Baloch) National interests”.

BLA commander further urged the Baloch Nation to decide one day as “NATIONAL REMEMBERCE DAY” to pay tributes to Baloch Martyrs instead of holding each martyrs day separately. On this day we should send a unanimous massage to International World that those youth, men and women of our Nation who have sacrificed their present for our future will be remembered as our heroes. This day we must tell the world that Baloch martyrs sacrificed their lives for nothing less than free Balochistan.

In their video message BLA also suggested that one day should be nominated as “Mehr Rouch” [National Unity or affection Day] to show solidarity with Baloch sarmachaars and to prove to the world that Baloch Nation rallies behind the Baloch freedom fighters. At the end of their video message BLA saluted the Martyrs of Balochistan and their families for their courageous fight against occupying forces. They termed the statements and messages of Baloch freedom loving people as a source of inspiration for Baloch freedom fighters.

The video message was dedicated to Saheed Irfan, Shaheed Sarwar aka Khalil Baloch, Shaheed Warna Majeed Zehri Baloch and Shaheed Sami Mengal. In other parts of videos the BLA showed their attacks against occupying forces (read Pakistanis) in different part of Balochistan. The video message also contained footage’s of some government agents who have been filmed while having picnics with Pakistan army Brigadiers.