شہید بالاچ مری – بلوچ چہ گویرہ
تحریر نواز بگٹی
١٧ جنوری ١٩٦٥ کو بلوچستان کے معروف مری قبیلے کے سردار نواب خیر بخش مری کے ہاں بلوچ مستقبل کے درخشاں ستارے میربالاچ مری کی پیدائش ہوئی- نواب صاحب نے بلوچ تاریخ کے مثالی بلوچ گوریلا بالاچ گورگیج کے نام پر اپنے بیٹے کا نام رکھتے ہوۓ شاید اپنے ذہن کے کسی گوشے میں اپنے فرزند کے مستقبل کے کردار کا کوئی تعین کر رکھا ہو ، لیکن انکے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا کہ انکا بالاچ بلوچ قوم کی آزادی کے راہ میں اپنے پیش رو بالاچ گورگیج کو بہت پیچھے چھوڑ دے گا
ابھی میر بالاچ کا بچپنا ہی نہیں گزرا تھا کہ نواب خیر بخش مری نے بلوچوں پر ہونے والے ریاستی مظالم کے خلاف بلوچ قومی آزادی کا علم بلند کیا – اپنے اس عظیم مقصد کے لئے انھوں نے قید و بند کی صعوبتوں کے ساتھ ساتھ ہجرت کی اذیت بھی برداشت کی
کہتے ہیں کہ بچوں کی تربیت میں ماؤں کا کردار کلیدی اہمیت رکھتا ہے – اور بلوچ ماں کی لوری تو اپنے بچے کے لئے چاکرا عظم سے کسی کم کردار پر رضا مند ہی نہیں ہوتی- میر بالاچ مری بھی بہادر ماں کی عظمت بھری لوریوں اور روایتوں کے امین ، عظیم باپ کے زیر تربیت پروان چڑھتے ہیں- انتہائی کم عمری ہی میں بلوچ اپنے گھر میں بلوچ آزادی کے شمع سے روشنی حاصل کرنے کا شرف بھی حاصل رہا – بلوچ قوم پر روا رکھے جانے والے انسانیت سوز مظالم اور بلوچوں کی جبری ہجرت ، دوران جدوجہد یش آنے والے دلخراش واقعات کے چشم دید گواہ بھی رہے
اپنی ابتدائی تعلیم بلوچ گلزمین سے دور افغانستان میں حاصل کی ، جبکہ اعلیٰ تعلیم روس کے دارلحکومت ماسکو اور برطانیہ کے دارلحکومت لندن سے حاصل کی – پاکستان کی پارلیمانی سیاست میں بھی جلا وطن رہ کر حصّہ لیا – بلوچستان صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوۓ – اور حلف برداری کی تقریب میں ” پاکستان سے وفاداری ” کے منافقانہ الفاظ استعمال کرنے سے یکسر انکار اور بلوچستان سے وفاداری کے تاریخی الفاظ کی گونج ریاستی اسمبلی میں سنائی دی
جب ریاستی نظام میں رہتے ہوۓ بلوچ قومی حقوق کے حصول کو نا ممکن جانا تو نواب اکبر خان بگٹی شہید کی معیت میں بلوچ آزادی و خود مختاری کے لئے ہتھیار اٹھاتے ہوۓ یہ تاریخی کلمات کہے ” میں نے اپنے لئے جس راہ کا انتخاب کیا ہے اس کے لئے اکثر و بیشتر ون وے ٹکٹ ہی دستیاب ہوتا ہے ” . بلوچ قوم کی جدوجہد آزادی میں جس محنت اور جانفشا نی سے حصّہ لیا اسکی بدولت انھیں بلوچ تاریخ کے چہ گویرہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے
ریاستی چیرہ دستیوں کے خلاف مسلح جدوجہد منظم کرنے کی وجہ سے ریاستی ادارے بہت عرصے سے میر بالاچ کی جان کے درپے تھے ، اور آخر کار ٢١ نومبر ٢٠٠٧ کو ریاست اپنے اس مذموم مقصد میں کامیاب ہوا ، اور بلوچ مجاہد میر بالاچ شہادت سے سرفراز ہوۓ – ریاستی افواج میر بالاچ مری کی شہادت کو اپنے لیۓ بہت بڑی فتح سمجھتی ہے ، ہر سال خصوصاً میر بالاچ شہید کی روز پیدائش ١٧ جنوری ، اور روز شہادت ٢١ نومبر کو ریاستی افواج بلوچ قوم پر ظلم و بربریت کی انتہا کر دیتے ہیں . اپنی اسی روایت کو برقرار رکھتے ہوۓ اس سال بھی ١٧ جنوری کے دن ٥ بلوچ نوجوانوں کو اغوا کر کے اذیت ناک تشدد کے بعد انکی مسخ شدہ لاشیں وطن عزیز کے طول و عرض میں پھینک دی گئیں- بلوچ قوم پر چڑھائی کر کے گھروں کو جلایا گیا ، نوجوان شکل بگٹی کو شہید اور ٤٠ سے زائد بزرگوں اور جوانوں کو گرفتار کر کے نا معلوم اذیت گاہوں میں منتقل کیا گیا- تا کہ بلوچ قوم اپنے قومی ہیرو کو خراج تحسین پیش نہ کر سکیں
بالاچ شہید کی شہادت کا واقعہ اگرچہ بلوچ تحریک آزادی کے لئے انتہائی بڑا نقصان ہی رہا ، لیکن انکی شہادت نے بلوچ تحریک کو مزید مہمیز کر دیا . آج بلوچستان کے کونے کونے سے بلوچ نوجوان اپنا سر ہتھیلی پر رکھے میر بالاچ کے مقصد کی تکمیل کے راہ پر گامزن ہیں