Archive for the ‘BLA’ Category
چھاپہ مار جنگ – ارنسٹو چہ گوارا
In BLA, bnf, bra, gurriella warfare on February 6, 2011 at 11:16 amچھاپہ مار جنگ – ارنسٹو چہ گوارا
In BLA, bnf, bra, gurriella warfare on February 3, 2011 at 3:35 pmچھاپہ مار جنگ – ارنسٹو چہ گوارا
In BLA, bnf, bra, gurriella warfare on February 2, 2011 at 1:41 pmچھاپہ مار جنگ – ارنسٹو چہ گوارا
In BLA, bnf, bra, gurriella warfare on February 2, 2011 at 4:30 amچھاپہ مار جنگ – ارنسٹو چہ گوارا
In BLA, bnf, bra, gurriella warfare on February 1, 2011 at 1:04 pm
چھاپہ مار جنگ – ارنسٹو چہ گوارا
In BLA, bnf, bra, war game on January 26, 2011 at 2:09 amچھاپہ مار جنگ – ارنسٹو چہ گوارا
حصّہ (VI )
مترجم نواز بگٹی
چھاپہ مار جنگجو کی ایک اور اہم خصوصیت ہوتی ہے اس کا لچکدار رویہ، ہر طرح کے حالات سے ہم آہنگ ہونے کی اس کی صلاحیت ، اور اپنی خدمات کو کاروائی کے دوران کسی بھی حادثے کی روشنی میں تبدیل کرنا- روایتی جنگی طریقوں پر اڑے رہنے کی بجاۓ، چھاپہ مار جنگجو جنگ کے ہر لمحے نت نۓ حربے استعمال کرتے ہوۓ دشمن کو مسلسل حیرت زدہ کیے رکھتا ہے –
ابتدائی مرحلے میں حالات لچکدار ہوتے ہیں ، ایسے مخصوص مقامات جہاں سے دشمن نہیں گزر سکتا، یا پھر ایسے مقامات جہاں سے دشمن کی توجہ بٹائی جاۓ- راستے کی مشکلات سے بتدریج آسان انداز میں نمٹتے ہوۓ ، آگے بڑھتا دشمن اکثر اپنے آپ کو اچانک مضبوط حصار میں گھرا ، آگے بڑھنے کے کوئی امکانات نہ دیکھ کر ششدر رہ جاتا ہے- ایسا سرہ تبھی ممکن ہے جب چھاپہ مار میدان کے گہرے مشاہدے کے بعد ایسے مقامات کا انتخاب کرتے ہیں جو ناقابل تسخیر ہوں- یہاں حملہ آور سپاہ کی تعداد کے بر عکس دفاعی سپاہ کی تعداد فیصلہ کن حیثیت اختیار کرتی ہے- مناسب دفاعی تعداد کی تعیناتی سے ایک پورے بٹالین کو کامیابی سے شکست دی جا سکتی ہے-یہ عمائدین کی ایک بڑی ذمہ داری ہوتی ہے کہ موزوں طور پر صحیح وقت اور جگہ کا انتخاب کریں جسکا دفاع بغیر پسپائی اختیار کیۓ ممکن ہو –
چھاپہ مار فوج کے حملہ کرنے کا انداز بھی جداگانہ ہے ، دشمن کو ششدر و حیرت زدہ کرتے ہوۓ جارحانہ انداز کا آغاز ، نا قابل مزاحمت، اور پھر اچانک مکمل سکوت – بچا کھچا دشمن اس یقین سے کہ فریق مخالف میدان سے فرار ہو چکا ہے ، آرام دہ محسوس کرنا شروع کرتا ہے ، معمولات زندگی کی انجام دہی کے لیۓ اپنے قلعے یا چھاؤنی میں آرام کرتے دشمن کو اچانک دوسری جانب سے ایک نۓ مقام سے حملہ کر کے جنجھوڑا جاتا ہے، جبکہ چھاپہ ماروں کی اصل قوت چھپ کر کسی بھی طرح کے رسد و کمک کو نشانہ بنانے کا انتظار کر رہی ہوتی ہے- پھر کسی وقت چھاؤنی کی کسی دفاعی چوکی پر چھاپہ ماروں کی طرف سے اچانک حملہ کیا جاتا ہے ، اور اسے مغلوب کر کے اس پر قبضہ کیا جاتا ہے – بنیادی چیز اچانک اور حیران کن حکمت عملی ، اور حملوں کا تیز تسلسل ہے-
سبوتاژ کا عمل بھی انتہائی اہم ہے – بہت ضروری ہے کہ ایک انقلابی اور انتہائی پر اثر جنگی طریقے “سبوتاژ” اور دہشت گردی کے فرق کو سمجھا جاۓ، کہ دہشت گردی بذات خود ایک بے اثرعمل ہے ، جس میں بغیر امتیاز ، معصوم انسان نشانہ بنتے ہیں ، وو لوگ بھی جو آگے چل کر انقلاب کا اہم حصّہ ثابت ہو سکتے ہیں- جب کسی انتہائی اہم انقلاب دشمن فرد/ گروہ کو نشانہ بنانہ مقصود ہو ، اسکی انقلاب دشمن سرگرمیوں ، اسکی جانب سے روا رکھی جانی والی مظالم ،یا پھر نا گزیر وجوہات کہ جن کی بناء پر ایسے شخص/ افراد کو راستے سے ہٹانا سودمند ہو ، تب دہشت گردی کا حربہ سودمند ثابت ہو سکتا ہے – مگر کم اہم لوگوں کو مارنے کا مشوره نہیں دیا جا سکتا ، کیونکہ اس سے صرف شدید رد عمل ہی کی توقع کی جا سکتی ہے ، جس کے نتیجے میں اموات میں مزید اضافے کا امکان ہوتا ہے-
دہشت گردی کے مختلف متنازعہ آراء میں ایک نقطہء اکثر پایا جاتا ہے – اکثر خیال کیا جاتا ہے کہ اس سے پولیس کے ظلم و جبر کو شہ ملتی ہے ، عوام کے ساتھ قانونی یا نیم خفیہ رابطوں میں رکاوٹ آتی ہے، اور مجموعی اتحاد نا ممکن بن جاتا ہے جو کہ نازک موقعوں پر انتہائی اہم ہے – یہ درست ہے ، لیکن خانہ جنگی میں ایسا کیا جاتا ہے ، کیونکہ مخصوص شہروں / قصبوں میں ریاستی افواج / اداروں کا جبر اس حد تک بڑھ چکا ہوتا ہے کہ ہر طرح کی قانونی کوششوں کو پہلے ہی دبایا جاتا ہے ، اور ایسی کوئی بھی عوامی تحریک کو نا ممکن بنایا جا چکا ہوتا ہے جسے مسلح اعانت حاصل نہ ہو -اس لئے بہت ضروری ہے کہ اس طرح کی کسی بھی کاروائی کی منصوبہ بندی انتہائی محتاط انداز میں کرتے ہوۓ ، ممکنہ نتائج ، اور اس کے انقلاب پر ممکنہ اثرات کا بغور جائزہ لیا جاۓ- کسی بھی طرح منظم سبوتاژ ہمیشہ ایک بہترین اور پراثر ہتھیار ہوتا ہے ، اگرچہ یہ اس انداز میں ہو کہ پیداواری ذرائع متاثر نہ ہوں ، آبادی کے ایک بڑے حصّے کو مفلوج کیا جاۓ ، تا وقتیکہ اسکا مفلوج ہونا معاشرے کے عام زندگی پر اثر انداز نہیں ہوتا- مشروبات کے کارخانے کو سبوتاژ کرنا ایک ظالمانہ اقدام ہوگا ، مگر کسی پاور پلانٹ کے لئے یہ سب نہ صرف درست ہوگا بلکہ اس کا مشوره بھی دیا جاتا ہے- پھی صورت میں صرف مزدوروں کی ایک مخصوص تعداد ہی بیروزگاری کا شکار ہو گی ، جبکہ مجموعی صنعتی زندگی میں کوئی اتار چڑھاؤ نہیں آنے والا -مگر دوسری صورت میں مزدور تو بیروزگار ہونگے ہی ، اس کے ساتھ ساتھ خطّے کی مجموعی زندگی بھی مفلوج ہو کر رہ جاۓ گی- سبوتاژ کے طریقوں کو ہم آگے چل کر دوبارہ زیر بحث لائیں گے-
دشمن افواج کا ایک پسندیدہ ہتھیار ، جسے جدید جنگوں میں فیصلہ کن حیثیت کا سمجھا جاتا ہے ، وہ ہے فضائیہ- کچھ بھی ہو جاۓ چھاپہ مار جنگ کے ابتدائی مرحلے میں ، بکھرے علاقوں میں ، جوانوں کے چھوٹے چھوٹے اجتماعات پر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا-فضائیہ کا استعمال نظر آنے والی منظم دفاع کو منظم طریقے سے ختم کرنے کے لئے کیا جاتا ہے ، ایسی دفاعی تعمیرات کے لیۓ بڑی فوجی اجتماعات کا ہونا ضروری ہے جو بہر حال اس طرح کی لڑائیوں میں ممکن نہیں-دور دراز میدانی علاقوں میں چھاپہ مار افواج کی بکھری ہوئی ٹکڑیوں کے پیش قدمی کو روکنے کے لیۓ بھی فضائیہ کسی خاص کارکردگی کا مظاہرہ کرنے سے قاصر ہے ، اس طرح کے خطرے سے بچنے کے لیۓ چھاپہ مار رات کے وقت اپنی نقل و حرکت جاری رکھ سکتے ہیں-
دشمن کے کمزور ترین پہلوؤں میں ایک نقلو حرکت کے لیۓ زمینی اور ریل راستوں کا استعمال ہے- زمینی راستوں یا ریل کے گزرگاہوں پر اپنے کمک و رسد کی قدم بہ قدم حفاظت با لکل نا ممکن ہے- گزرگاہ کے کسی بھی مقام پر بارودی مواد کا مناسب مقدار لگا کر راستے کو مسدود کیا جا سکتا ہے، یا پھر کسی گاڑی کے گزرتے وقت دھماکہ کر کے بیک وقت راستہ کاٹنے کے ساتھ ساتھ دشمن کو شدید مالی و جانی نقصان بھی پہنچایا جا سکتا ہے -دھماکہ خیز مواد کی بھی مختلف اقسام ہیں ، انہیں بیرونی ذرائع سے خریدا بھی جا سکتا ہے ، یا پھر آمر افواج سے چھینے گۓ بم بھی استعمال کیۓ جا سکتے ہیں ، لیکن ایسا ہمیشہ نہیں ہوتا – باہر سے تیار بم بھی برآمد کیے جا سکتے ہیں ، اور انہیں تحریک کے زیر تسلط علاقے میں کسی خفیہ تجربہ گاہ میں بھی تیار کیا جا سکتا ہے ، لیکن اس کا دارومدار چھاپہ ماروں کی صلاحیتوں اور حالات پر ہوتا ہے-
ہم اپنی تجربہ گاہوں میں پاؤڈرتیار کرتے تھے جسے دھماکہ خیز ٹوپی کی جگہ استعمال کیا جاتا تھا ، ہم نے بوقت ضرورت بارودی سرنگوں کے دھماکوں کے لیۓ مختلف اقسام کی دھماکہ خیز اشیاء بھی کامیابی سے بنا لی تھیں – ان میں بہتر نتائج الیکٹرک ذرائع استعمال کرنے والے آلات سے حاصل ہوئیں- ہم نے جو پہلا بم پھوڑا وہ آمر افواج کے جہازوں سے گرایا گیا تھا- ہم نے اس کے گرد کئی دھماکہ خیز ٹوپیاں لپیٹیں ، پھر ایک بندوق کو گھوڑے کی جگہ استعمال کیا ، بندوق کے گھوڑے کو ایک رسی باندھ کر قدرے فاصلے پر رہتے ہوۓ کھینچا گیا ، جب دشمن کا ایک ٹرک اس کے قریب سے گزر رہا تھا ہم نے یہ دھماکہ کیا-
ان طریقوں کو بہت بہتر حد تک ترقی دی جا سکتی ہے- ہمیں ایسی اطلاعات بھی مل رہی ہیں کہ الجیریا میں فرانسیسی قبضہ گیروں کے خلاف ریڈیائی لہروں کی مدد سے دور رہتے ہوۓ بارودی سرنگوں کو پھوڑا جا رہا ہے –
سڑک کنارے گھات لگا کر دشمن کے کارواں کو بارودی سنگ سے نشانہ بنانے کے بعد بچے کھچے سپاہیوں کی تباہی ، ہتھیاروں اور گولہ بارود کے حصول میں بہت ثمر آور ثابت ہوتی ہے- متحیر دشمن اپنا اسلحہ استعمال کرنے کے قابل نہیں رہتا ، نہ ہی اسکے پاس فرار کا وقت ہوتا ہے، لہٰذا تھوڑا سا بارود خرچ کر کے بڑے نتائج حاصل کیۓ جاتے ہیں- مسلسل جھٹکوں کے بعد دشمن بھی اپنی حکمت عملی تبدیل کرتا ہے ، تنہا ٹرکوں کے بجاۓ تیز رفتار گاڑیاں قافلوں کی شکل میں استعمال کرنا شروع کرتا ہے . بہر حال درست میدان کا انتخاب کر کے ، کارواں کو بارودی سرنگ کے ذریعے منقسم کرنے کے بعد کس ایک گاڑی پر اپنی تعام تر قوت مرکوز کر کے اسی طرح کے نتائج حاصل کیۓ جا سکتے ہیں- اس طرح کی کاروایوں کے لیۓ چھاپہ ماری کی ضروری حربوں کو ذہن میں رکھنا چاہیے ، وہ کچھ یوں ہیں ، میدان کی مکمل معلومات ، فرار کے راستوں کو پیشگی نظر میں رکھتے ہوۓ محفوظ بنانا، تمام ثانوی راستوں پر کڑی نگاہ رکھنا جن سے حملے کی جگہ تک کسی بھی قسم کی رسد پہنچانا ممکن ہو، مقامی آبادی سے قریبی تعلقات ، تا کہ بوقت ضرورت ، رسد ، نقل و حرکت اور اور زخمیوں کے لیۓ عارضی یا مستقل پناہ میں مدد کو یقینی بنایا جا سکے، منتخب مقام پر عددی برتری ،نقل و حرکت کی یقینی آزادی اور ممکنہ حد تک تازہ دم سپاہ پر انحصار –
اگر ان تمام شرائط یقینی طور پر پورا کیا جاتا ہے تو دشمن کے کاروان رسد پر حملے کے نتیجے میں سامان رسد میں قابل قدر حصّے داری بن سکتی ہے-
چھاپہ مار جنگ کی بنیادی اصولوں میں سے ایک علاقے کے عوام سے مکمل ہم آہنگی ہے -حتیٰ کہ دشمن سے ہم آہنگ ہونا بھی بہت ضروری ہے ،حملے کے وقت دشمن سے مکمل غیر لچکدار رویہ رکھنا چاہیے ، تمام چھوٹے سے چھوٹے عناصر کے بارے میں غیر لچکدار رویہ جنھیں جاسوسی ، یا قتل و غارت میں ذرا بھی استعمال کیا جا سکتا ہو ، اور دشمن کے سپاہیوں یا ممکنہ عسکری فرائض انجام دینے والوں سے ممکنہ حد تک رحم سے پیش آنا چاہیے – یہ ایک اچھی حکمت عملی ہوگی کہ جب تک محفوظ ٹھکانے دستیاب نہ ہوں کسی کو قیدی نہ بنایا جاۓ – بچ جانے والوں کو آزاد کیا جاۓ – زخمیوں کی دستیاب وسائل کے دائرہ کار میں رہتے ہوۓ خوب دیکھ بھال کی جاۓ – مؤثر انداز میں سرگرم رہنے کے لیۓ عام آبادی سے انتہائی قابل احترام سلوک کیا جانا چاہیے ، انکے رسم و رواج کی پاسداری نہایت ضروری ہے – اپنے عمل سے جابر افواج کے مقابلے میں اپنی اخلاقی برتری ثابت کرنی ہے- مخصوص حالات کے علاوہ کسی کو بھی اپنی صفائی کا موقع دیے بغیر سزا نہیں دینی چاہیے-
چھاپہ مار جنگ – ارنسٹو چہ گوارا
In BLA, bnf, bra, gurriella warfare, war game on January 24, 2011 at 3:03 amچھاپہ مار جنگ – ارنسٹو چہ گوارا
مترجم نواز بگٹی
چھاپہ مار جنگ – ارنسٹو چہ گوارا
In BLA, bnf, bra, gurriella warfare, war game on January 23, 2011 at 4:10 pmچھاپہ مار جنگ – ارنسٹو چہ گوارا
مترجم نواز بگٹی
چھاپہ مار جنگ – ارنسٹو چہ گوارا
In BLA, bnf, bra, gurriella warfare, war game on January 22, 2011 at 11:26 amچھاپہ مار جنگ – ارنسٹو چہ گوارا
حصّہ سوم
مترجم نواز بگٹی
ماؤ کے چینی تحریک کا آغاز اگرچہ جنوب کے منظم مزدوروں کی جدوجہد سےہوتا ہے ، جسے شکست سے دوچار ہونا پڑا ، اور قریب تھا کہ تحریک تباہی سے دوچار ہوتی ، پھر اسے دوبارہ استحکام اور آگے بڑھنے کا موقع ینان کے لانگ مارچ کے بعد نصیب ہوتا ہے ، جب تحریک اپنی بنیادیں دیہی علاقوں میں رکھتی ہے اور زرعی اصلاحات کو اپنا بنیادی مقصد بناتی ہے – اسی طرح ہوچی منہ کی تحریک بھی چاول کے کاشتکاروں کی مرہون منت ہے ، جن کے حقوق فرانسیسی نو آبادیاتی دیو نے غصب کیے ہوۓ تھے -انہی کی طاقت کے سہارے وہ (ہوچی منہ ) نوآبادی نظام کو شکست دینے کے لیۓ آگے بڑھتا ہے – متذکرہ دونوں معاملات میں جاپانی حملہ آوروں کے خلاف ملی حمیت کا جذبہ تو کارفرما تھا ہی ، لیکن زمین کی ملکیت کا اقتصادی پہلو بھی یکسر ختم نہیں ہوتا- الجیریا ہی کی مثال کو سامنے رکھیں جہاں عظیم تر عرب قومیت کے پہلو میں بھی اقتصادیات کھڑی نظر آتی ہیں – درحقیقت دس لاکھ کے قریب فرانسیسی تقریباً الجیریا کے تمام قابل کاشت رقبے سے مستفید ہو رہے ہیں -چند ایک ملک ، جیسے کہ پورٹو ریکو ہے ، جہاں جزیرے کی مخصوص حالات چھاپہ مار جنگ کی اجازت نہیں دیتے ، یہاں بھی روز مرّہ بنیادوں پر مجروح ہوتی ملی حمیت کے نتیجے میں قومی بیداری کی لہر کے پیچھے اقتصادی وجوہات کارفرما ہیں ، اس( قومی بیداری) کا ماخذ بھی کاشتکاروں (جنکی اکثریت پہلے ہی کھیت مزدور کی غلامانہ حیثیت میں رہتی ہے ) کی ، “یانکی” حملہ آوروں کے زیر قبضہ زمینوں کو واگزار کروانے سے ہے – یہی وہ مرکزی خیال ہے جو تیس سالہ جدوجہد آزادی کے دوران مشرقی کیوبا کی ریاستوں کے چھوٹے کاشتکاروں ، کسانوں اور غلاموں کو حریت پسندوں کی جانب راغب کرتی ہے ، تاکہ وہ زمین کی ملکیتی حقوق کا مشترکہ دفاع کر سکیں
چھاپہ مار جنگ کی مرحلہ وار ترقی کے امکانات ، ( کہ آگے چل کر یہ باقاعدہ جنگ میں بدل سکتی ہے ) کو مد نظر رکھتے ہوے کہا جا سکتا ہے کہ اس طرح کی لڑائیاں اپنے مخصوص کردار کے باوجود دوسرے کے لئے بار آور بیج ، تعارفی مراحل کی حیثیت رکھتے ہیں- چھاپہ مار جنگ کے روایتی جنگ میں بدل جانے کے امکانات اتنے ہی ہوتے ہیں ، جتنے کہ ہر چھوٹی لڑائی ، مقابلے یا جھڑپ کے بعد دشمن کی شکست کے بڑھتے ہوۓ امکانات، اسی لئے بنیادی اصول یہی ہے کہ کوئی بھی لڑائی ، جھڑپ ، یا مقابلہ اس وقت تک لڑی جاۓ جب تک اس میں واضح فتح نہیں حاصل ہوتی- یہاں چھاپہ مار جنگ کی ایک شرارتی تعریف کا بھی ذکر کرتا چلوں ، کہ ” چھاپہ مار جنگجو ، جنگوں کے پراسرار دیو مالائی دربار سے منسلک ہوتا ہے ” ، یہ رازداری، دھوکہ دہی ، اور متحیر کن خصوصیات کی طرف اشارہ ہے ، جنھیں چھاپہ مار جنگ کے بنیادی عناصر کے طور پر جانا جاتا ہے – یہ مخصوص پراسرار آفاقی / دیومالائی کیفیت فطری طور پر حالات کی پیدا کی ہوئی ہے، جنکے تحت مخصوص اوقات میں ، روایتی رومانوی یا حمایتی طریقہء کار کے برعکس عمل کی متقاضی ہوتی ہے ، جو ہمیں یقین دلانا چاہتی ہیں کہ جنگ لڑی جا چکی ہے
جنگ ہمیشہ ایک ایسی جدوجد کا نام ہے جس میں مدمقابل قوتیں ایک دوسرے کو نیست و نابود کرنے کی کوشش کرتی ہیں- وہ اپنی مقصد کو حاصل کرنے کے لئے تمام ممکنہ حکمت عملیوں اور حربوں سے استفادہ کرتے ہیں. عسکری حربے اور حکمت عملیاں گروہ کے مجوزہ مقاصد اور انھیں حاصل کرنے کے ذرائع کو ظاہر کرتی ہیں- یہ ذرائع دشمن کی تمام کمزوریوں کے بغور جائزے کے بعد ان سے فائدہ اٹھانے کے ہوتے ہیں- کسی بھی بڑی فوج کے لڑنے والے انفرادی پلٹن کی خصوصیات بعینہ چھاپہ مار گروہ کی خصوصیات کو ظاہر کرتی ہیں- ایسی پلٹنیں بھی رازداری ، دھوکا دہی ، اور متحیر کرنے والی حکمت عملی کا استعمال کرتی ہیں ، اگر وو ایسا نہیں کر پاتیں تو اس سے دشمن کی بہترین جاسوسی کا نتیجہ ہی قرار دیا جاتا ہے – مگر چونکہ چھاپہ مار گروہ اپنے جوہر میں منقسم ہوتی ہے اور اسکا دائرہ عمل بہت بڑے خطّے کا احاطہ کرتی ہے ، جس پر دشمن کا مکمل اختیار نہیں ہوتا ، لہٰذا چھاپہ مار اپنے حملوں میں دشمن کو متحیر کرنے کے عنصر کو یقینی بنا لیتا ہے – اور ایسا کرنا اس کے لیۓ از حد ضروری ہے- مارنا اور فرار ہونا . بعض لوگ مزاحیہ طور پر بھی ایسا کہتے ہیں، اور یہی درست ہے – مارو اور بھاگ جاؤ ، انتظار کرو ، شبخون کے لئے بیٹھے رہو ، پھر مارو اور بھاگ جاؤ ، ہر بار کا اسی طرح کا عمل تاکہ دشمن کو سکون میسر نہ ہو سکے – اس میں یہی سب ہے ، ہو سکتا ہے یہ منفی خصوصیت ہو ، شکست تسلیم کرنے کا رویہ ، یا پھر دو بدو لڑائی سے گریز ہو – بہر حال یہ چھاپہ مار جنگ کی عمومی حکمت عملی کا نتیجہ ہیں – جس کا مقصد ہرجنگ کی طرح اپنے منطقی انجام تک فتح اور دشمن کی مکمل تباہی ہی ہے
(جاری ہے …….)
چھاپہ مار جنگ – ارنسٹو چہ گوارا
In BLA, bnf, bra, gurriella warfare, war game on January 22, 2011 at 3:54 amچھاپہ مار جنگ – ارنسٹو چہ گوارا
(حصّہ دوئم )
مترجم نواز بگٹی
تیسرے عامل کا تعلق بنیادی حکمت عملی سے ہے – یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ جو لوگ چھاپہ مار جنگ کا مرکز شہروں کو سمجھتے ہیں وہ درحقیقت کم ترقی یافتہ امریکی دنیا کے طول و عرض میں روز مرہ معاملات کی انجام دہی کے لئے دیہی سماج کے بھرپور کردار کو بھول رہے ہوتے ہیں – یقیناً شہری سماج کے منظم مزدوروں کی جدوجہد کی اہمیت بھی کچھ کم نہیں ، لیکن حقیقی مسلح جنگ میں انکی عملی شمولیت کے امکانات کا محتاط جائزہ لینا از حد ضروری ہے، خصوصاً ایسے حالات میں جن شہریوں کے تحفظ کی روایتی آئینی و ریاستی ضمانتیں معطل ہوں یا انھیں جان بوجھ کر نظر انداز کیا جا رہا ہو- ایسی صورت میں غیر قانونی مزدوروں کی تحریک کو شدید خطرات کا سامنا ہوتا ہے- انھیں چاہیے کہ رازداری سے غیر مسلح رہ کر اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں- لیکن کھلے ڈلے دیہی ماحول میں حالات قدرے آسان ہیں ، یہاں غاصب قوتوں کی پہنچ سے دور ایک چھاپہ مار جنگجو مقامی آبادی کی مدد کر سکتا ہے- آگے چل کر ہم کیوبا کے انقلاب کے تجربات سے اخذ کیے گۓ ان تینوں نتائج کا بغور جائزہ لیں گے- فی الحال ہماری کوشش ہے کہ ان پر بنیادی عوامل کی حیثیت سے بحث کی جاۓ
چھاپہ مار جنگ ، جو کہ قوموں کی جدوجہد آزادی کی بنیاد ہے ، اپنے اندر متنوع خصوصیات اور متضاد حقائق رکھنے کے باوجود ہر جگہ قومی آزادی کی لازمی بنیادی اور مشترکہ خصوصیت رکھتی ہے- یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ تمام جنگیں کچھ سلسلہاۓ سائنسی قوانین کی تابع ہونی چاہیئں ، اور اس موضوع پر لکھنے والے اکثر مصنفین بھی اس پر متفق نظر آتی ہیں- ان قوانین سے روگردانی کا انجام شکست کی گہری کھائیوں میں غرقاب ہونا ہی ہے- اگرچہ چھاپہ مار جنگ بھی جنگ ہی کا ایک مرحلہ ہے لہذٰا اسے بھی ایسی تمام قوانین کا تابع ہونا ضروری ہے، لیکن اپنی مخصوص پہلوؤں کی وجہ سے چھپا مار جنگ کو جاری رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ چند حادثاتی اصولوں کو بھی تسلیم کیا جاۓ – کسی بھی خطّے کی انفرادی جغرافیائی و سماجی حالات ہی چھاپہ مار جنگ کی حتمی وضح قطع کا تعین کرتی ہیں ، لیکن کچھ عمومی قواعد ایسے بھی ہیں جو اس طرح کی تمام لڑائیوں پر یکساں لاگو ہوتی ہیں
یہاں ہمارا مقصد ، اس طرح کی لڑائیوں کے لئے ، ان بنیادی قاعدے قوانین کی شناخت و تعین ہے کہ جنکی پیروی آزادی پسند لوگوں کی تحریکوں میں لازمی ہے ، حقائق کی رو سے نظریات کی تشکیل ، اور اپنے تجربات کو متشکل کر کے دوسروں کے فائدے کی غرض سے عام کرنا ہے
پہلے تو ہم اس سوال پر غور کرتے ہیں کہ چھاپہ مار جنگ لڑنے والی سپاہ آخر کون ہیں؟ ایک طرف ہمارے سامنے غاصبوں اور انکے زرخریدوں کا گروہ ہے ، ایک پیشہ ور فوج ، خوب مسلح و منظم ، جو کہ اکثر اوقات بیرونی و اندرونی (اپنے ملازم نوکر شاہی ) امداد سے بھی مستفید ہوتی ہے – جبکہ دوسری طرف ایک خطّے یا قوم کے لوگ ہیں یہاں یہ بتانا بہت اہم ہے کہ چھاپہ مار جنگ ایک اجتماعی جنگ ہے ، عوامی جنگ – چھاپہ مار جنگجو تو مسلح مرکزے کی حیثیت رکھتے ہیں ، لوگوں کے ہر اول دستے کی حیثیت – انکی طاقت کا بہت حد تک عوام پر ہی انحصار ہوتا ہے – چھاپہ ماروں کو کسی بھی مد مقابل فوج کے مقابلے میں صرف اس لئے کمزور نہیں سمجھنا چاہیے کہ انکی گولہ باری کی صلاحیتیں نسبتاً کم ہیں- چھاپہ مار جنگ وہی لڑتے ہیں جنکے پاس وسیع عوامی تائید ہونے کے باوجود اپنی دفاع کے لئے قلیل اسلحہ و بارود دستیاب ہوتا ہے
چھاپہ مار جنگجو کو علاقے کے عوام کی مکمل حمایت کی ضرورت ہوتی ہے – یہ ایک نا قابل تردید شرط ہے – اسے مزید واضح کرنے کے لئے کسی بھی علاقے میں سرگرم عمل مجرموں کے گروہ کی مثال لی جا سکتی ہے ، یہ چھاپہ مار جنگجوؤں کی تمام خصوصیات رکھتی ہیں ، اشتراکیت ، قیادت کا احترام ، جرأت ، علاقے کی بہترین معلومات ، اور اکثر سمجھداری سے وضح کی گئی حکمت عملی بھی اختیار کرتے ہیں – لیکن جس چیز کی کمی رہتی ہے ، وہ ہے واضح عوامی حمایت -اور انجام کار ایسے گروہ ریاستی طاقتوں کی جانب سے بہت جلد گرفتاری یا تباہی سے دوچار ہوتی ہیں
چھاپہ مار گروہ کی سرگرمیوں کی شکل و صورت کا جائزہ لینے ، اسکی جدوجہد کے وضح قطع کو دیکھنے ، عوام میں اسکی جڑوں کو سمجھنے کے بعد ہم اس سوال کا جواب دے پاتے ہیں کہ ایک چھاپہ مار جنگجو آخر لڑتا کیوں ہے ؟ ہم اس حتمی نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ چھاپہ مار ایک سماجی اصلاح کار ہوتا ہے ، کہ وہ اپنے ناراض عوام کے احتجاج پر لبیک کہتے ہوۓ غاصبوں کے مقابلے کے لیۓ ہتھیار اٹھاتا ہے ، اور وہ اس سماجی نظام کی تبدیلی کے لیۓ ہتھیار اٹھاتا ہے جس میں اس کے غیر مسلح بھائی بند تکلیف دہ اور قابل رحم زندگی گزارنے پر مجبور ہیں – وہ ایک مخصوص وقت میں راج کرنے والے اداروں کے خلاف ڈٹ جاتا ہے ، اور اپنی تمام تر قوت ایسے ادارے کی تباہی کے جنگ میں جھونک دیتا ہے
جب ہم چھاپہ مار جنگ کی حکمت عملیوں کا مزید باریکی سے جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ چھاپہ مار جنگجو کے لیۓ ارد گرد کے علاقے کی جامع معلومات ہونا بہت ضروری ہیں – چھاپہ مار کا ، داخلی و خارجی راستوں ، تیز نقل و حرکت کے امکانات ، بہتر کمین گاہوں ، اور فطری طور پر عوامی اعانت پرہی انحصار رہتا ہے – یہاں واضح ہوتا ہے کہ چھاپہ مار جنگجو وسیع و عریض بیابانوں میں سرگرم رہتا ہے ، جہاں آبادی نسبتاً بہت کم ہوتی ہے – بہرحال ان علاقے کے لوگوں کی شدید خواہش ہوتی ہے کہ زمین کی مالکانہ حقوق کے غاصبانہ قوانین تبدیل ہوں اور چھاپہ مار جنگجو بلاشبہ ایک زرعی اصلاح کار ہوتا ہے – وہ کاشتکاروں کی غالب اکثریت کے خواہشات کی نمائندگی کر رہا ہوتا ہے – ان خواہشات میں کاشتکاروں کی اپنی زیر کاشت زمین کی ملکیت کے حقوق ، اپنے پیداواری ذرائع کے مالکانہ حقوق ، اپنے چوپیاؤں اور ہر اس چیز کے مالکانہ حقوق جسے وہ تنکا تنکا جوڑتے ہیں اور اپنا سمجھتے ہیں ، جن پر انکی زندگی اور موت کا انحصار ہوتا ہے
یاد رہے کہ موجودہ تشریحات کی رو سے دو طرح کی چھاپہ مار جنگیں اپنا وجود رکھتی ہیں – جن میں سے ایک کا تعلق عظیم فوجی طاقتوں کی مدد سے ہے ، جیسا کہ روس کے معاملات میں یوکرینی جنگجوؤں کا کردار رہا ہے ، ہم ان کے تذکرے سے پہلو تہی کریں گے – ہماری دلچسپی کا مرکزدوسری قسم کے جنگجو ہیں ، ایسے مسلح جنگجو گروہ جو کسی مستحکم قوت (نو آبادیاتی ہو یا نہ ہو ) سے پنجہ آزمائی کر رہے ہوں ، ایسا گروہ جسکا ایک مرکز ہو اور وہ دیہی علاقوں میں سرگرم ہو – چاہے لڑائی کے مقاصد کا ماخذ کوئی بھی نظریہ ہو ، ایسے تمام معاملات میں اقتصادی پہلو کا تعلق ہمیشہ زمین کی ملکیت سے ہوتا ہے
(جاری ہے …….)