Let we struggle our way

Archive for the ‘BLA’ Category

چھاپہ مار جنگ – ارنسٹو چہ گوارا

In BLA, bnf, bra, gurriella warfare on February 6, 2011 at 11:16 am
چھاپہ مار جنگ – ارنسٹو چہ گوارا
مترجم نواز بگٹی
حصّہ (XI )
باب دوئم – چھاپہ مار گروہ

چھاپہ مار سپاہی – ایک جنگجو ( قسط – ١)

چھاپہ ماروں کی زندگی اور سرگرمیوں کا عمومی خطوط پر جائزہ لیا جاۓ تو معلوم ہوتا ہے کہ  مخصوص حالات میں تفویض کردہ مہم کی  بخوبی انجام دہی ، جسمانی ، ذہنی اور اخلاقی خصوصیات کے تسلسل کی متقاضی ہوتی ہے –
اگر پوچھا جاۓ کہ چھاپہ مار جنگجو کیسا ہونا چاہیے تو اس کا پہلا جواب یہی ہوگا کہ ترجیحی طور پر اسے ، اسی علاقے کا باشندہ ہونا چاہیے – اگر ایسا ہی معاملہ ہے تو اس کے کچھ دوست ہونگے جو اسکی مدد کر سکتے ہیں ، اگر وہ اسی علاقے سے تعلق رکھتا ہے تو اسے علاقے سے بھی بخوبی واقفیت ہوگی ( زمینی حقائق کا گہرا علم چھاپہ مار جنگ کا ایک اہم ترین پہلو بھی ہے ) ، اور جیسے کہ وہ مقامی عادات و اطوار کا عادی ہوتا ہے وہ بہتر طور پر کام کر سکتا ہے ، یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ اپنے لوگوں کے دفاع اور اپنی دنیا کو تکلیف میں مبتلا کیۓ رکھنے والی سماجی اقدار کی تبدیلی کے لئے لڑنے میں وہ کتنا پرجوش ہوتا ہے-
چھاپہ مار جنگجو راتوں کا مجاہد ہوتا ہے ، ایسا کہتے ہوۓ یہی کہنا چاہیۓ کہ اسے (چھاپہ مار کو ) ان جنگوں کے لیۓ ضروری تمام خصوصی صفات کا حامل ہونا چاہیۓ- وہ اسقدر شاطر ہو کہ میدانوں یا پہاڑوں میں پھیلے دشمن پر حملے کے جگہ تک اس انداز میں پہنچے کہ کوئی اس پر توجہ نہ دے سکے ، پھر اچانک دشمن پر ٹوٹ پڑے ، اس طرح کی لڑائیوں میں اچانک حملے کی اہمیت اس بات کی حقدار ہے کہ اس پر دوبارہ زور دیا جاۓ – اچانک حملے سے دہشت پیدا کرنے کے بعد اسے چاہیۓ کہ اپنے ہمراہیوں کو کوئی بھی کمزوری دکھاۓ بغیر شدید جنگ چھیڑ دے ، اور دشمن کی ایک ایک کمزوری سے بھرپور فائدہ اٹھا ۓ- ایک طوفان کی طرح حملہ آور ہو تے ہوۓ ، ہر چیز کو تباہ کرتے ہوۓ ، کوئی بھی کونہ چھوڑے بغیر ( تا وقتیکہ حکمت عملی کا کوئی تقاضا نہ ہو ) ، ہر اس شے کی شناخت کرتے ہوۓ کہ جن کی شناخت ضروری ہو ، دشمن سپاہ میں دہشت پھیلاتے ہوۓ ، آگے بڑھنا چاہیۓ ، اگرچہ اسے لاچار قیدیوں سے اچھے سلوک اور ( دشمن سپاہ کی ) نعشوں کا احترام کرنا چاہیۓ-
ایک زخمی دشمن کا خیال رکھا جاۓ اور اس سے احترام کا برتاؤ ہونا چاہیۓ ، تاوقتیکہ اس کی پچھلی زندگی اسے سزاۓ موت کا حقدار نہیں ٹھہراتا ، ایسی صورت میں اس کے ساتھ برتاؤ اس کے اعمال کے مطابق کیا جاۓ – جو کام ہرگز نہیں کرنی چاہیۓ ، وہ ہے دشمن سپاہیوں کو قیدی بناۓ رکھنا، تا وقتیکہ دشمن کی دست برد سے محفوظ مستقر  کا قیام یقینی نہیں ہوجاتا – ورنہ یہی قیدی (خدا نخواستہ ) دوبارہ اپنے ساتھیوں سے مل کر نہ صرف مقامی آبادی کے تحفظ کے لیۓ بہت بڑا خطرہ  ثابت  ہو سکتے ہیں ، بلکہ (دوران قید اپنے مشاہدات کی رو سے حاصل کردہ ) معلومات دشمن تک پہنچا کر چھاپہ مار گروہ کی بقاء و کارکردگی کے لیۓ بھی انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں – اگر وہ ( قیدی ) کوئی خطرناک مجرم نہیں تو اسے مختصر اخلاقی درس کے بعد آزاد کر دینا چاہیۓ-
چھاپہ مار جنگجو سے یہی توقع کی جاتی ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی زندگی کا خطرہ مول لیتا ہے ، اور ضرورت پڑنے پر اپنی زندگی قربان کرنے سے سر مو دریغ نہیں کرتا ، لیکن بیک وقت اس سے انتہائی احتیاط کی بھی توقع کی جاتی ہے اور اسے بغیر کسی خاص ضرورت کے سامنے نہیں آنا چاہیۓ- شکست و بربادی سے بچنے کے لیۓ لازمی ہے کہ تمام ممکنہ احتیاتی تدابیر اختیار کی جائیں – اسی لیۓ ضروری ہے کہ ہر لڑائی میں ان تمام مقامات پر نظر رکھنی چاہیۓ جہاں سے دشمن افواج کو کمک مل سکتی ہو ، اور محاصرے میں آنے سے بچنے کے لیۓ ہر ممکن احتیاط کی جانی چاہیۓ ، اس ( محاصرے ) کے نتائج ضروری نہیں کہ بہت بڑی جانی نقصان کی صورت میں سامنے آئین ، لیکن جدوجہد کے تناظر میں، اعتماد کا  فقدان پورے عمل کی حوصلہ شکنی کا سبب بن سکتا ہے –
بہر حال اسے بہادر ہونا چاہیۓ ، اور کسی بھی کاروائی کے دوران تمام ممکنہ خطروں کا تجزیہ کرنے کے بعد ، اسے حالات کے تناظر میں پرامید طریقہ کار اپناتے ہوۓ کسی موافق فیصلے تک پہنچنے کے وجوہات تلاش کرنے چاہیئں ، حتیٰ کہ ایسے اوقات میں بھی جب موافق و نا موافق کے تجزیے میں کوئی حوصلہ افزاء توازن تک نظر نہ آۓ-
زندگی اور دشمن کی کاروائیوں کے درمیان پیدہ شدہ حالات میں زندہ رہنے کے قابل رہنے کے لیۓ ، چھاپہ مار جنگجو کو چاہیۓ کہ وہ مطابقت کے ایسے نقطے تک پہنچ جاۓ جو اسے ان حالات میں شناخت کی اجازت دیں جن میں وہ رہتا ہے ، وہ ان (مخصوص حالات )  کا حصّہ بن جاۓ ، اور اپنے اتحادی کی حیثیت سے ان (حالات )  کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاۓ-اسے تیز فہم ، جدت اور فوری فیصلے کی صلاحیت سے لیس ہونا چاہیۓ ، تا کہ وہ کاروائی کے غالب پہلو کے تناظر میں اپنی حکمت عملی کی مناسب تبدیلی کے قابل ہو –
چھاپہ مار جنگجو کو اپنے کسی زخمی ساتھی کو کبھی بھی دشمن افواج کے رحم و کرم پر کبھی بھی نہیں چھوڑنا چاہیۓ ، کیونکہ اس کا مطلب ہوگا اسے تقریباً یقینی موت کے حوالے کرنا- اسے ہر قیمت پر دشمن کے علاقے سے کسی محفوظ مقام پر منتقل کیا جاۓ – اس انخلاء میں زیادہ سے زیادہ خطرہ بھی مول لیا جا سکتا ہے- چھاپہ مار جنگجو کا ساتھ بھی یقیناً غیر معمولی انسان ہوگا-
بیک وقت چھاپہ مار کو اپنا منہ بند رکھنا ہوگا ، جو کچھ بھی اس کے سامنے کہا یا کیا جاۓ اسے اپنے ذہن تک محدود رکھنا ہوگا – اسے کبھی بھی اپنے آپ کو کسی غیر ضروری لفظ کی ادائیگی کی اجازت نہیں دینی چاہیۓ ، حتیٰ کہ اپنی صفوں میں اپنی سپاہ کے سامنے بھی ، کیوں کہ دشمن کی ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ چھاپہ مار گروہ کی صفوں میں اپنے جاسوس داخل کیۓ جائیں تاکہ انکے منصوبوں ،محل وقوع  ، اور انکی زندگی کے ذرائع کے بارے میں معلومات حاصل کر پائیں-
متذکرہ اخلاقی صلاحیتوں کے  ساتھ ساتھ ، چھاپہ مار جنگجو کا بہت ساری جسمانی صلاحیتوں کا حامل ہونا بھی ضروری ہے- اسے ہر حال میں نہ تھکنے والا ہونا چاہیۓ -جب تھکن نا قابل برداشت ہو تو ایسے میں اسے لازمی طور پر  نئی کوشش کرنی چاہیۓ – اسکے چہرے سے جھلکتا گہرا اعتقاد ، اسے ایک اور قدم اٹھانے پر مجبور کرتا ہے ، اور یہ آخری قدم نہیں ہوتا بلکہ ایک اور پھر ایک اور حتیٰ کہ وہ اپنی قیادت کی جانب سے نامزد جگہ تک پہنچ جاتا ہے –

اسے انتہاؤں کو بھی برداشت کرنے کے قابل ہونا چاہیۓ ،انھیں ( چھاپہ ماروں کو )  نہ صرف کم خوراکی، پانی ، کپڑوں اور چھت کی کمی  کے ساتھ گزارا کرنا ہوتا ہے (کہ ان حالات کا تو انہیں اکثر سامنا ہوتا ہی ہے ) ، بلکہ  ان میں بیماری اور زخموں کو برداشت کرنے کی بھی غیر معمولی صلاحیت ہونی چاہیۓ جو کسی جرا ح/ طبیب کی خاص مدد کے بغیر فطری طور پر مندمل ہوتے ہیں- یہ بہت ضروری ہے ، کیونکہ دشمن ہمیشہ ان افراد کو قتل کرتے ہیں جو زخموں یا بیماری کی صورت میں علاج کے لیۓ چھاپہ ماروں کے زیر تسلط علاقے سے باہر نکل آتے ہیں-
ان شرائط کو پورا کرنے کے لیۓ اسے ( چھاپہ مار کو ) آہنی اعصاب کا مالک ہونا چاہیۓ ، جو اسے بیمار ہوۓ بغیر ان تمام مشکلات سے نبرد آزما ہونے کے قابل بنا دیتی ہے ، اور اسکی ، شکار کیۓ ہوۓ جانور کی زندگی سے مماثل کمزوریوں کو طاقت میں بدلنے میں مدد دیتی ہیں – مطابقت پیدا کرنے کی اپنی فطری صلاحیت کے بدولت ، وہ اس زمین کا حصّہ بن جاتا ہے جس پر وہ برسر پیکار ہوتا ہے-

(…… جاری ہے )

چھاپہ مار جنگ – ارنسٹو چہ گوارا

In BLA, bnf, bra, gurriella warfare on February 3, 2011 at 3:35 pm
چھاپہ مار جنگ – ارنسٹو چہ گوارا
حصّہ (x )
مترجم نواز بگٹی
باب دوئم – چھاپہ مار گروہ
چھاپہ مار جنگجو – سماجی مصلح

ہم پہلے ہی بیان کر چکے ہیں کہ چھاپہ مار جنگجو عوامی آزادی کے خواہش میں ساجھے دار کی حیثیت سے ، ( جدو جہد آزادی کی ) پر امن راہوں کے مسدود ہونے کی بناء پر  ، عوام کے ہر اول دستے کے مسلح سپاہی کی حیثیت سے جنگ کا آغاز کرتا ہے – جدوجہد کے با لکل ابتداء ہی سے اسکی نیت ظلم و جبر کو نیست و نابود کرنے کی ہوتی ہے ، اسکی اس نیت میں قدیم کو جدید سے بدلنے کا ارادہ پوشیدہ ہوتا ہے –

ہم یہ بھی پہلے بتا چکے ہیں کہ امریکہ میں ، بلکہ ناقص اقتصادی ترقی کے حامل  تمام  ممالک میں اندرون ملک ( دیہی ) علاقے ہی جنگ کے لئے مثالی حالات مہیا کرتے ہیں – اسی لئے چھاپہ مار اپنے سماجی ڈھانچے کی بنیادیں رکھنے کا آغاز زرعی زمین کے ملکیت کی تبدیلی سے کرتا ہے –

ابتداء میں چاہے اپنے اصلاحاتی اہداف کا جامع اظہار ہو پاۓ یا نہ ہو پاۓ ،یا پھر  یہ بے زمین کسانوں کی صدیوں پرانی  خواہش یعنی اپنی زیر کاشت زمین کی ملکیت کے مالکانہ حقوق کا سادہ سا حوالہ ہی ہو ، لیکن اس پوری مدّت میں جنگی پرچم  زرعی اصلاحات کے بنیادوں پر ہی بلند کیا جاۓ  گا –
اب زرعی اصلاحات کے نفاز کی صورت کیا ہو ، اس کا انحصار جنگ شروع ہونے سے پہلے کے حالات اور جدوجہد کی سماجی گہرائی پر ہوتا ہے – لیکن چھاپہ مار جنگجو کو ، بلند مرتبہ اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوۓ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ جن مقاصد کی نگہبانی کے لئے عوام کے ہراول دستے کا کردار نبھا رہا ہے ، ان مقاصد کا حقیقی داعی وہی ہے – جنگ کے مشکل حالات کی مسلط کردہ خوشی اور غم کی کیفیات میں اسے خود پر سختی سے قابو رکھنا ہوگا ، تا کہ وہ (اپنے مقصد سے ) ذرا بھی روگردانی کا شکار نہ ہو ، ذرا سی بھی زیادتی کا مرتکب نہ ہو – چھاپہ مار جنگجو کو چاہیے کہ وہ  اپنے آپ کو ( اپنے مقصد کی حصول کے لئے ) وقف کر دے –
جہاں تک سماجی تعلقات کا سوال ہے ، یہ رشتے بڑھتے ہوۓ جنگ کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتے رہتے ہیں – ابتداء میں تو چھاپہ مار جنگجو کے لیۓ ممکن ہی نہیں ہو گا کہ وہ کسی سماجی تبدیلی کی کوشش بھی کرے –
ایسی اشیاء جن کی خریداری میں نقد ادائیگی نہ کی جا سکتی ہو ، انھیں ضمانتوں کے عوض خریدا جا سکتا ہے ، اور ان ضمانتوں کو موقع ملتے ہی چھڑا لینا چاہیے –
کاشتکاروں کی ہمیشہ ، تکنیکی ، اقتصادی ، اخلاقی اور ثقافتی مدد کرنی چاہیے – غریبوں کے لیۓ ہمیشہ مددگار ، اور جنگ کے ابتدائی مرحلے میں  امراء کو حتیٰ الا مکان کم سے کم پریشان کرتے ہوۓ ، چھاپہ مار جنگجو کو  ہمیشہ زمین پر اترنے والے ایک راہنماء فرشتے کی مانند ہونا چاہیے – لیکن یہ جنگ اپنی متعین کردہ راہ پر جاری رہے گی ، تضادات مسلسل بڑھتے رہیں گے ، اور ایک وقت ایسا آۓ گا جب کچھ لوگ جن کا رویہ انقلاب کے لیۓ ہمدردانہ تھا ، اب انقلاب کی مخالفت پر کمر بستہ نظر آئین گے ، اور یہی لوگ مقبول عوامی قوت کے مقابلے میں سب سے پہلے محاظ بنا لیں گے – ایسے وقت میں چھاپہ مار جنگجو کو چاہیے کہ وہ اپنے بنیادی مقاصد سے اعلیٰ وابستگی کا مظاہرہ کرتے ہوۓ ہر قسم کی غداری کو منصفانہ سزا دے- جنگ زدہ علاقے کی شخصی جائدادیں سماجی مقاصد کے حصول کے ذرائع کی شکل دینی چاہیے ، مثال کے طور پر اضافی زمین ، یا مویشیوں کی کثیر تعداد کسی مخصوص خاندان کی امارت کا سبب ہونے کی بجاۓ ، انھیں منصفانہ طور پر برابری کی بنیاد پر غرباء میں تقسیم کیے جانے چاہیئں –
سماجی مقاصد کے لیۓ حاصل کی جانے والی اشیاء کے مالکان کے معاوزے کی خواہش کا ہمیشہ احترام کرنا چاہیے – اور اس معا وزے کی ادائیگی ہمیشہ ضمانتی ہوگی ( امید کی ضمانت ! جسے ہمارے استاد جنرل بایو قرض دینے والے اور قرض خواہ کے باہمی مفادات کے حوالوں سے بیان کرتے تھے )   – بد معاشوں اور انقلاب دشمنوں کی زمین و جائداد کو فوری طور پر انقلابی قوتوں کے ہاتھوں میں منتقل کر دینا چاہیے – مزید برآں جنگ کی حدّت سے فائدہ اٹھاتے ہوۓ ، جب عوام میں برادرانہ تعلقات اپنے عروج پر پہنچ جائیں ، تو مقامی اقدار کے تناظر میں امداد باہمی کے تمام امور کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے –
چھاپہ مار جنگجو کو ایک سماجی مصلح کی حیثیت میں  صرف اپنے زندگی کی مثال فراہم نہیں کرنی چاہیے ، بلکہ اسے نظریاتی مسائل سے بھی آگاہی فراہم کرنی ہوگی ، اسے وضاحت کرنی ہوگی کہ وہ کیا کچھ جانتا ہے اور صحیح وقت میں کیا کرنا چاہتا ہے- اس نے جو کچھ سیکھا ہوتا ہے اسے استعمال کرنا ہوگا ، جنگ کے ماہ و سال سے اس کے نظریات میں جو پختگی آئی ہے ، ہتھیاروں کی صلاحیت کا مظاہرہ اس کی انتہا پسندی میں جس اضافے کا سبب بنی ، عوامی نقطہء نظر جو اس کے روح ، اس کی زندگی کا حصّہ بن چکی ہے ، اور اسے جو انصاف کی سمجھ ملی ہے ، وہ تبدیلی کے تسلسل کی اہمیت کا جو ادراک رکھتی ہے ، اور ان سب عوامل کیجو اہمیت اس کے سامنے واضح ہوئی ، اور ان سب سے فوری محرومی کی حقیقت ، ہر شے میں دوسروں کو شریک کرنا ہوگا –
ایسے حالات اکثر پیدا ہونگے ، کیونکہ چھاپہ مار جنگ کے سپاہی ، یا چھاپہ مار جنگ کے ہدایتکار ان لوگوں میں سے نہیں جو کسی کے اشارہ ابرو پر جھکے ہوں – یہ تو وہ لوگ ہیں جو ضروری نہیں کہ خود اپنی ذاتی زندگی میں کسی ایسے  کڑوے تجربے سے گزرے ہوں ، بلکہ یہ لوگ  کھیت مزدوروں / کاشتکاروں کے نقطہء نگاہ سے ، سماجی رویوں میں  تبدیلی کی ضرورت کو سمجھتے ہیں -جب ایسا ہوتا ہے ( کیوبا کے تجربے کی روشنی میں بات کو آگے بڑھاتے ہیں ) تو ان راہنماؤں کے درمیان حقیقی روابط پیدا ہوتے ہیں ، وہ جو اپنے عمل سے لوگوں کو مسلح جدو جہد کی بنیادی اہمیت کی تعلیم دیتے ہیں ، اور وہ  لوگ جو بغاوت کی پیداوار ہوتے ہیں اور اپنی قیادت کو ان عملی ضروریات  کی تعلیم دیتے ہیں جنکی ہم بات کر رہے ہیں – پس چھاپہ مار جنگجو اور اوکے لوگوں کے درمیان ان روابط کے نتیجے میں ایک ترقی پسند انتہا پسندی جنم لیتی ہے ، جو تحریک کی انقلابی خصوصیات پر زور دیتے ہوۓ اسے قومی تحریک کی حیثیت دیتی ہے-

چھاپہ مار جنگ – ارنسٹو چہ گوارا

In BLA, bnf, bra, gurriella warfare on February 2, 2011 at 1:41 pm
چھاپہ مار جنگ – ارنسٹو چہ گوارا
(حصّہ IX )
مترجم نواز بگٹی
مضافاتی جنگ

اگر دوران جنگ چھاپہ مار کسی مضافاتی مقام تک پہنچ جاتے ہیں ، اور شہروں میں گھسنے کی کوشش کرتے ہیں ، انھیں حفاظتی نقطہء نگاہ سے مناسب صورتحال پیدا کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے – ایسے میں ضروری ہے کہ ان مضافاتی چھاپہ مار گروہوں کو خاص تعلیم دی جاۓ بلکہ خاص انداز میں منظم کیا جاۓ –

یہ سمجھنا ضروری ہے کہ مضافاتی چھاپہ مار ایک خود رو مخلوق نہیں ہے – یہ صرف اس وقت پیدا کیے جا سکتے ہیں جب اس کی بقاء کے لیۓ ضروری حالات تیار کیۓ جائیں – اسی لیۓ مضافاتی چھاپہ مار ہمیشہ کسی دوسرے علاقے میں موجود قیادت سے براہ راست ہدایات لیتے ہیں  – یہ مضافاتی چھاپہ مار آزادانہ حیثیت سے کوئی سرگرمی  نہیں دکھا سکتے ، بلکہ یہ اپنی سرگرمیوں کی منصوبہ بندی کچھ اس انداز میں کرتی ہیں کہ یہ بڑی حکمت عملی کے حصّے کے طور پر  کسی دوسرے علاقے کے عوامی مفادات کی کاروائیوں میں معاونت کا کردار ادا کرتی ہیں ، کیونکہ یہاں کسی دوسرے چھاپہ مار گروہ کو اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی آزادی حاصل نہیں ہوتی ، اس طرح کی کاروائیوں کا  مقصد مخصوص اہداف کا حصول ہوتا ہے – مثال کے طور پر مضافاتی چھاپہ مار گروہ اس قابل نہیں ہوتی کہ ٹیلیفون لائنوں کی تباہی ، کسی دوسرے علاقے میں جا کر حملہ کرنے ، یا پھر دور دراز سڑکوں پر دشمن افواج کے کسی گشتی پارٹی پر اچانک حملہ کرنے جیسی اہداف میں سے اپنے لیۓ کوئی انتخاب کر سکیں ، یہ صرف وہی کچھ کرتے ہیں جس کے بارے میں انھیں کہا جاتا ہے – اگر اس کو دیا ہوا ہدف ٹیلیفون کے کھمبے گرانے ، بجلی کی تاریں کاٹنے ، نکاسی کے نظام کو تباہ کرنے ، ریل کے راستوں یا پھر پانی کے ذخیروں کی تباہی ہو ، یہ ( مضافاتی چھاپہ مار ) خود کو اسی حد تک محدود کر لیتے ہیں تا کہ مخصوص ہدف کو بہتر طور پر حاصل کیا جا سکے –

انہیں چار سے پانچ افراد سے زیادہ نہیں ہونا چاہیۓ – یہاں محدود تعداد کی اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے کیونکہ مضافاتی چھاپہ مار کی تعیناتی کو انتہائی نا موافق حالات کے تناظر میں دیکھنا ہوگا ، جہاں دشمن کی نگرانی کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں ، اور یہاں شدید رد عمل کے ساتھ ساتھ دھوکا دہی کے امکانات بھی بہت زیادہ ہوتے ہیں -ایک اور مشکل صورتحال کا بھی ذکر کرتے چلیں کے مضافاتی چھاپہ مار گروہ جس علاقے میں سرگرم ہوتے ہیں وہاں سے دور بھی نہیں جا سکتے – کاروائی اور انخلاء کی رفتار کے سلسلے میں ، کاروائی کی جگہ اور کمین گاہ میں فاصلے کو بھی محدود کیا جانا چاہیۓ ، اور دیں کے وقت مکمل اخفاء / روپوشی بھی ایک اہم ضرورت ہوتی ہے – یہ انتہائی حد تک رات کی تاریکی میں سرگرم رہنے والا چھاپہ مار گروہ ہوتا ہے ، تا وقتیکہ حالات ایسے ہو جائیں کہ یہ کسی شہر کے محاصرے کے دوران جھڑپ میں براہ راست حصّہ لینے کے قابل ہوں –

ان حالات میں چھاپہ ماروں کی ضروری خصوصیات ہوتی ہیں ، تنظیم ( شاید یہاں اس خصوصیت کی انتہائی حد تک ضرورت ہوتی ہے ) اور صوابدیدی صلاحیتیں – خوراک کی فراہمی کے معاملے میں وہ دو سے تین دوست گھرانوں سے زیادہ پر انحصار نہیں کر سکتا ، اور یہ بات تقریباً یقینی ہے کہ ان گھروں کے محاصرے کا نتیجہ موت ہی ہوگا – مزید برآں ان کا اسلحہ بھی دوسرے چھاپہ ماروں کے زیر استعمال اسلحے سے مختلف نوعیت کا ہوتا ہے – یہ اسلحہ کچھ اس طرح کا ہونا چاہیۓ جسے ذاتی حفاظت کے مقاصد کے لیۓ استعمال کیا جا سکے ، جس سے فوری انخلاء کے راستے میں کوئی مشکل نہ  پیش آۓ، اور نہ ہی چھاپہ مار کے خفیہ کمین گاہ کی نشاندہی کا سبب بنے – ہتھیاروں کے معاملے میں یہ گروہ اپنے ساتھ زیادہ سے زیادہ ایک کاربائن یا پھر ایک یا دو مخفی شاٹ گن ، اور باقی اراکین کے لیۓ پستول رکھ سکتا ہے –

انہیں محض مخصوص سبوتاژ کی کاروائی پر اپنی تمام تر توجہ مرکوز رکھنی چاہیۓ ، اور مسلح حملے کبھی نہیں کرنے چاہیۓ ، سواۓ دشمن  کے ایک یا دو سپاہیوں یا دشمن کے ایک آدھ ایجنٹ پر اچانک حملے کے-

سبوتاژ کے لیۓ چھاپہ ماروں کے پاس جامع اوزاروں کا ہونا بہت ضروری ہے – چھاپہ ماروں کے پاس بہترین آری ، دھماکہ خیز مواد کا بڑا ذخیرہ ، پکس اور شاولز ( بھاری وژن اٹھا نے کی جدید مشینیں ) ، ریل کی پٹریوں کو اکھاڑنے کے مناسب اوزار ، غرضیکہ اپنے ہدف کے حصول کے لیۓ تمام میکانیکی اوزار اس کے پاس ہونے چاہیئں – ان اوزاروں کو محفوظ جگہوں پر بڑی احتیاط سے چھپانا چاہیۓ ، اور ان افراد کے آسان دسترس میں جنھیں یہ سب استعمال کرنا ہے ( چھاپہ ماروں کے سرگرم اراکین کے ) –

اگر وہاں ایک سے زیادہ چھاپہ مار گروہ سرگرم ہیں تو وہ سب ایک ہی قیادت تلے ہونگے ، جو انھیں عام زندگی جینے والے قابل بھروسہ افراد کے ذریعے کسی مخصوص کاروائی کے بارے میں ہدایات کاری کرے گا – مخصوص معاملات میں چھاپہ مار اپنے زمانہ امن کی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے قابل تو ہوتا ہے ، لیکن ایسا بہت مشکل ہوتا ہے – عملی طور پر کہا جاۓ تو ” مضافاتی چھاپہ مار گروہ ایسے افراد پر مشتمل ہوتا ہے ، جو پہلے ہی قانون کے دائرہ کار سے نکل چکے ہوتے ہیں ، حالت جنگ میں رہتے ہوۓ ، انتہائی نا موافق حالات میں سرگرم رہتے ہیں ، جنکا ہم پہلے احاطہ کر چکے ہیں “-

مضافاتی چھاپہ ماروں کے کردار کی اہمیت کو عام طور پر کم تر بنا کر پیش کیا جاتا ہے ، بہت خوب – اس طرح کی اچھی کاروائیاں  ، جو بہت بڑے علاقے تک پھیلاۓ جائیں ، تقریباً پورے علاقے کی تجارتی و صنعتی زندگی کو مفلوج کر دیتے ہیں ، جس کے نتیجے میں پوری آبادی میں بے چینی اور غم و غصّے کی کیفیت  پیدا ہوتی ہے ، پرتشدد حالات کے معاملے میں عدم برداشت جنم لیتی ہے ، جس سے غیر یقینی صورتحال کا خاتمہ ہو جاتا ہے – اگر جنگ کے ابتدائی دنوں ہی سے ، مستقبل میں اس طرح کی جنگی حکمت عملی کے امکانات کو مد نظر رکھتے ہوۓ ، ماہرین کو منظم کرنا شروع کیا جاۓ ، تو تیز ترین کاروائیوں کو یقینی بنایا جا سکتا ہے ، اور اس سے نہ صرف انسانی جانوں کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے بلکہ قوم کے انمول وقت کو بھی بچایا جا سکتا ہے –

چھاپہ مار جنگ – ارنسٹو چہ گوارا

In BLA, bnf, bra, gurriella warfare on February 2, 2011 at 4:30 am

چھاپہ مار جنگ – ارنسٹو چہ گوارا
حصّہ ( VIII )

مترجم نواز بگٹی

ناموافق میدانوں میں نظام جنگ

ایسے علاقے میں چھاپہ مار جنگ کو لڑنے کے لئے ، جہاں کچھ زیادہ پہاڑ نہیں ، جنگلات کی کمی ہے ، بہت زیادہ روڈ رستے ہیں ، چھاپہ مار جنگ کی تمام بنیادی ضروریات کو مد نظر رکھنا چاہیے ، صرف صورتیں تبدیل ہونگی – چھاپہ مار جنگ کی ، صرف اور صرف عددی تبدیلی ہوگی نہ کہ معیاری تبدیلی – مثال کے طور پر ، پچھلی روایات کو برقرار رکھتے ہوۓ ، اس طرح کے چھاپہ ماروں کی نقل و حرکت غیر معمولی ہو ، رات کے وقت حملوں کو ترجیح دینی چاہیے ، حملوں کا تسلسل انتہائی تیز ہونی چاہیے ، لیکن چھاپہ ماروں کو چاہیے کہ وہ مسلسل متحرک رہیں ، جہاں سے آتے ہوں واپسی کے لئے وہاں جانے کی بجاۓ کسی دوسرے راستے سے نکل جائیں ، اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوۓ کہ قرب و جوار میں ایسی کوئی بھی جگہ نہیں جو غاصبوں کی دست برد سے محفوظ ہو ، جسے وہ ( چھاپہ مار ) اپنی چھاؤنی یا عارضی آرام گاہ کے طور پر استعمال کر سکیں ، انہیں   کاروائی کے علاقے سے جتنا ممکن ہو دور نکل جانا چاہیۓ .
ایک جوان رات کے اوقات میں تقریباً تیس سے پچاس کلو میٹر تک سفر کر سکتا ہے ، اور ضرورت کے مطابق صبح سویرے تک سفر کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے ، بشر طیکہ کاروائی کے علاقے پر گہری نظر نہ رکھی جا رہی ہو ،علاقے کی مقامی آبادی سے کوئی خطرہ درپیش نہ  ہو ، نہ ہی آتے جاتے کسی گشتی دستے کی نظروں میں آنے کا خطرہ ہو کہ جس سے چھاپہ ماروں کی محل وقوع اور  آمد و رفت کے راستے دشمن کے نظروں میں آ سکتے ہوں –  حملوں کے لئے رات کی تاریکی کو ترجیح دینی چاہیۓ ، کاروائی سے قبل اور کاروائی کے بعد ممکنہ حد تک خاموشی کو برقرار رکھا جاۓ -حملوں کے لئے رات کے ابتدائی اوقات بہترین تصور کیے جاتے ہیں – حالات کو مد نظر رکھتے ہوۓ ، بنیادی قوائد سے روگردانی بھی کی جا سکتی ہے -حملے کے لئے  پو پھٹنے ( صبح سویرے ) کے وقت کا انتخاب بھی کیا جا سکتا ہے- دشمن کو مخصوص جنگی حالات کا عادی بنانا عقلمندی نہیں ہوگی ، لہٰذا ضروری ہے کہ اہداف ، اوقات اور طریقہء کار میں مسلسل تبدیلی جاری رکھی جاۓ –
جیسے کہ ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ اکثر کاروائیاں زیادہ لمبے وقت تک نہیں جاری رکھی جا سکتیں ، لیکن کاروائیوں کی تعداد میں تیزی لانی چاہیۓ ، انھیں زیادہ سے زیادہ مؤثر  ہونا چاہیۓ ، ان کا دورانیہ چند لمحوں پر مشتمل ہو ، اور پھر اسی تیزی سے فرار بھی اختیار کیا جاۓ –  یہاں ہتھیار بھی موافق میدانوں میں مستعمل ہتھیاروں سے مختلف ہونگے ، خود کار ہتھیاروں کی بارے تعداد کو ترجیح دی جاۓ گی- رات کی تاریکی میں نشانہ بازی کی صلاحیت کوئی فیصلہ کن کردار نہیں ادا کرتی ،بلکہ فائر پر زیادہ توجہ مبذول کرنی چاہیۓ ، کم فاصلے سے خود کار ہتھیاروں سے جارحانہ حملوں میں دشمن کو زیادہ سے زیادہ تباہی سے دو چار کرنا ممکن ہو جاتا ہے –
یہاں سڑکوں اور پلوں کوبارودی سرنگوں کے زریعے تباہ کرنے کی حکمت عملی بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہے – تسلسل اور مستقل مزاجی حوالے سے دیکھا جاۓ تو چھاپہ مار جارحیت کم ہی نظر آۓ گی ، لیکن یہ بہت پر تشدد ہوتے ہیں ، اور وہ ( چھاپہ مار ) مختلف ہتھیار استعمال کر سکتے ہیں ، جیسے بارودی سرنگیں یا شاٹ گن وغیرہ – کھلی گاڑیوں میں موجود سپاہ ، جو کہ سپاہیوں کی نقل و حرکت کا عمومی طریقہ بھی ہے ، حتیٰ کہ بند گاڑیوں یا بسوں وغیرہ کی حفاظت کا اہتمام نا ممکن ہوتا ہے ، لہٰذا انکے خلاف شاٹ گن کا استعمال بہت مؤثر ثابت ہو سکتا ہے – لمبی شاٹ کا حامل شاٹ گن بہت مؤثر ہو سکتا ہے – یہ صرف چھاپہ ماروں کی خصوصیت نہیں بلکہ بڑی روایتی جنگوں میں بھی یہ ایک آزمودہ طریقہ ہے – مشین گنوں کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے کے لیۓ امریکیوں نے ، شاٹ گنوں کو بہتر گولہ بارود سے لیس  ، سنگین بردار فوجی ٹکڑیوں کا کامیاب استعمال کیا ہے –

یہاں گولہ بارود کے حوالے سے ایک اہم وضاحت بھی ضروری سمجھتے ہیں ، یہ تقریباً ہمیشہ دشمن ہی سے حاصل کیۓ جاتے ہیں -اس لیۓ ضروری ہے کہ ایسی جگہوں پر جارحانہ حملے کیۓ جائیں جہاں سے اسلحہ و گولہ بارود کا خاطر خواہ ذخیرہ ہاتھ لگنا یقینی ہو ، تا وقتیکہ ( چھاپہ مار ) اپنے محفوظ ذخائر کو بہت بڑھا نہیں لیتے – دوسرے الفاظ میں دشمن کے کسی گروہ کو برباد کرنے کے لیۓ اپنی گولہ بارود کو اس وقت تک داؤ پر نہیں لگانا چاہیۓ ، تا وقتیکہ اس ( اسلحہ ) کے متبادل کا حصول یقینی نہیں ہو جاتا – چھاپہ ماروں کو جنگ جاری رکھنے کے لیۓ اسلحہ کے حصول کی راہ  میں درپیش مشکلات کو ہمیشہ مد نظر رکھنا چاہیۓ – اس مقصد کے لیۓ چھاپہ ماروں کے لیۓ ضروری ہے کہ وہ بھی وہی ہتھیار استعمال کریں جو دشمن کے زیر استعمال ہیں ، سواۓ چند مخصوص اقسام کے ہتھیاروں کے ، جیسے کہ ریوالور یا شاٹ گن وغیرہ کہ ان کی گولیاں علاقے میں بآسانی دستیاب ہوتی ہیں یا پھر شہروں سے حاصل کی جا سکتی ہیں –
یہاں چھاپہ مار گروہ میں شامل جوانوں کی تعداد دس – پندرہ سے زیادہ نہیں ہونی چاہیۓ  – کسی بھی ایک جھڑپ کے لیۓ جوانوں کی تشکیل  میں محدود تعداد کو ہمیشہ مد نظر رکھنا چاہیۓ ، دس-بارہ- پندرہ لوگ کہیں بھی آسانی سے چھپ سکتے ہیں ، اور بوقت ضرورت ایک دوسرے کی بہتر مدد کر دشمن کے مقابلے میں شدید مزاحمت کا مظاہرہ کر سکتے ہیں- چار یا پانچ کی تعداد شاید کم ہو ، جبکہ اگر یہی تعداد دس سے تجاوز کر جاۓ تو اس بات کے امکانات زیادہ ہیں کہ یہ (چھاپہ مار ) اپنی کمین گاہوں میں ہی دشمن کی نظروں میں آ جائیں یا پھر (ہدف کی جانب ) پیشقدمی کے دوران دشمن ان کی نشاندہی کر لے-
یاد رکھیں کہ چھاپہ مار گروہ کی سرعت رفتار ہمیشہ گروہ میں شامل کمزور ترین شخص کی رفتار کے برابر ہوتی ہے – اس لیۓ مشکل ہے کہ بیس ، تیس ، یا چالیس افراد پر مشتمل گروہ کا رفتار ، دس افراد پر مشتمل گروہ کے برابر ہو – اور میدانی علاقوں میں تو چھاپہ مار کو بنیادی طور پر بہترین بھاگنے والا ہونا چاہیۓ – یہاں مارنے اور بھاگنے کی بنیادی مشق کا استعمال کا بہترین مظاہرہ ہوتا ہے – میدانی علاقوں کے چھاپہ ماروں کے پاس چونکہ جم کر مزاحمت کرنے کے لیۓ کسی بھی مقام کے انتخاب کے لیۓ غیر یقینی کی سی کیفیت ہوتی ہے ، اسی لیۓ انھیں ( چھاپہ ماروں کو ) ہر وقت محاصرے میں آنے کے شدید خطرات لاحق ہوتے ہیں ، اسی لیۓ انھیں چاہیۓ کہ لمبے عرصے تک رازداری سے روپوش رہیں ، کسی بھی ہمساۓ پر بھروسہ کرنا انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے ، تاوقتیکہ ان کی وفاداریوں کا واضح تعین نہ کیا جاۓ – دشمن کا جبر اتنا پرتشدد ہوتا ہے ، عام طور پر اتنا ظالمانہ ہوتا ہے ، کہ نہ صرف خاندان کا سربراہ ، بلکہ بچے اور خواتین بھی ان کی دست برد سے محفوظ نہیں رہتے ، اس قدر شدید دباؤ میں کوئی بھی ایسا فرد جس کی وابستگی متزلزل ہو ، کسی بھی موقع پر دشمن کو ایسی معلومات دے سکتا ہے جس سے چھاپہ ماروں کے کمین گاہوں کی نشاندہی ہو سکے یا ان کے طریقہء کار کی ،کہ وہ کس طرح کام کرتے ہیں- جس کے نتیجے میں ہمیشہ محاصرے کا خطرہ سر ابھارتا ہے ، جو ہمیشہ  غیر متوقع نتائج کا حامل ہوتا ہے ، اگرچہ ضروری نہیں کہ محاصرے کے نتیجے میں بھاری نقصان بھی ہو – جب اسلحہ کی فراوانی ہو ، لوگوں میں بغاوت کا شدید جزبہ ہو، اور چھاپہ مار گروہ میں جوانوں کی تعداد بڑھانا نا گزیر ہو ،  تو ایسے حالات میں چھاپہ مار گروہ کو تقسیم کر دینا چاہیۓ -اگر ضرورت محسوس کی جاۓ تو یہ منقسم گروہ کسی مخصوص کاروائی کی انجام دہی کے لیۓ اکٹھے ہو جائیں ، اور کاروائی کے مکمل ہوتے ہی دوبارہ دس-بارہ- پندرہ کی تعداد میں منتشر ہو کر الگ الگ مقامات کی جانب نکل جائیں –

یہ بالکل ممکن ہے کہ تمام چھوٹی بڑی  (چھاپہ مار ) افواج کو ایک قیادت کی چھتری تلے جمع کیا جا سکے ، اوراس قیادت کے احترام اور اسکی تابعداری کو یقینی بنایا جا سکتا ہے ، بغیر اس سوال کے کہ تمام افواج (چھاپہ ماروں ) کا تعلق ایک ہی گروہ سے ہے یا نہیں – اسی لیۓ چھاپہ ماروں کے سربراہوں کے انتخاب میں ضروری ہے کہ اس کی  (منتخب سربراہ کی ) نظریاتی اور شخصی حیثیت میں تمام علاقائی سربراہان سے ہم آہنگی کو مد نظر رکھا جاۓ –

بزوکه اگرچہ ایک بھاری ہتھیار ہے لیکن نقل و حمل میں آسانی اور آسان طریقہء استعمال کی بناء پر اسے چھاپہ مار استعمال کر سکتے ہیں – آج کل کے رائفل کے ذریعے فائر ہونے والے اینٹی ٹینک گرنیڈ، اس (بزوکه ) کا بہتر متبادل ہو سکتے ہیں- ظاہر ہے یہ وہ ہتھیار ہیں جنھیں دشمن ہی سے حاصل کیا جا سکتا ہے – بزوکه ایک ایسا ہتھیار ہے جس سے بکتر بند گاڑیوں کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے ، اور غیر بکتر بند ایسی گاڑیوں کو بھی جو دشمن افواج سے بھری ہوئی ہوں ، یا پھر کم جوانوں کی مدد سے کسی بھی (دشمن کے ) مرکز پر کم سے کم وقت میں قبضہ کیا جا سکتا ہے ، لیکن یہاں یاد رکھنے کا نقطہء یہ ہے کہ کوئی بھی جوان تین سے زیادہ (بزوکه کے ) گولے نہیں اٹھا سکتا ، اور اس یہی نقطہ ہمیشہ مد نظر رہنا چاہیۓ –

دشمن سے چھینے ہوۓ بھاری ہتھیاروں کا استعمال کسی عار کی بات نہیں ، لیکن کچھ بھاری بھرکم ہتھیار جیسے ٹرائی پاڈ مشین گن ، یا بھاری  پچاس ملی میٹر مشین گن 3  جیسے ہتھیاروں کے ہاتھ آنے کے بعد ان کے  استعمال کا مطلب ہوگا دوبارہ ان سے ہاتھ دھو بیٹھنا – دوسرے الفاظ میں نا موافق حالات جنگ ، جنکا ہم تجزیہ کر رہے ہیں ، ٹرائی پاڈ مشین گن یا اس طرح کی دوسری بھاری ہتھیاروں کا دفاع کرنے کی اجازت نہیں دیتے – انھیں (بھاری ہتھیاروں کو )  با لکل بھی استعمال نہیں کرنا چاہیۓ ، تا وقتیکہ  کسی اہم موقع کے پیش نظران ہتھیاروں سے دست بردار ہونا ضروری نہیں ہو جاتا – ہمارے کیوبائی جنگ آزادی میں ، ہتھیاروں سے دست برداری کو سنگین جرم سمجھا جاتا تھا ، اور کبھی بھی ایسی صورتحال نہیں پیدا ہوئی کہ ان ہتھیاروں سے دست بردار ہونا پڑتا – پھر بھی ہم نے ایسے حالات  کی واضح نشاندہی کر دی ہے جب ہتھیاروں سے دست برداری کو قابل ملامت عمل نہیں سمجھنا چاہیۓ- ناموافق میدانوں میں چھاپہ مار سپاہی کا ہتھیار ، تیز فائر کرنے والا ذاتی ہتھیار ہی ہوتا ہے –

کسی بھی علاقے میں آسان رسائی کا مطلب ہوتا ہے کہ  وہاں آبادی ملے گی ، کاشتکار بھی خاصی تعداد میں ہونگے ، یہی سہولیات رسد میں حیران کن آسانی کا سبب ہوتے ہیں – قابل اعتماد لوگوں ، اور علاقے کو خوراک و رسد پہنچانے والے ذرائع سے اچھے روابط استوار کر کے ،رسد کے طویل اور پر خطر روایتی ذرائع پر وقت صرف کیۓ بنا ، بھاری بھرکم رقم خرچ کیۓ بغیر ہی  چھاپہ مار گروہ کو بہترین حالت میں برقرار رکھا جا سکتا ہے -یہاں اس بات کا اعادہ کرنا مناسب ہوگا کہ تعداد جتنی کم ہو خوراک کا حصول اتنا ہی آسان ہوگا – بنیادی ضروریات جیسے ، بستر، واٹر پروف سامان ، مچھر دانیاں ، جوتے ، ادویات ، اور خوراک وغیرہ تو علاقے ہی سے براہ راست  دستیاب ہو سکتی ہیں ، کیونکہ یہ مقامی آبادی کی  روز مرّہ استعمال کی اشیاء ہی ہیں-

زیادہ افرادی قوت اور زیادہ سڑکوں پر انحصار کر کے روابط کو تو بہتر بنایا جا سکتا ہے ، لیکن ایسے میں دور دراز مقامات تک پیغامات کی حفاظت کے سنگین سوال ابھر سکتے ہیں ، اس لیۓ ضروری ہے کہ قابل بھروسہ روابط کا ایک سلسلہ قائم کیا جاۓ – دشمن کی صفوں میں مسلسل آمد و رفت کی وجہ سے کسی بھی پیغام رساں کی اچانک گرفتاری کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے – اگر پیغام کم اہمیت کا حامل ہے تو یہ زبانی ہونا چاہیۓ ، اگر اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے تو لکھنے کے لیۓ مخصوص مخفی طریقہ استعمال کرنا چاہیۓ – تجربےسے ظاہر ہوتا ہے کہ لفظ بہ لفظ پیغامات اکثر روابط کو بگاڑ نے کا سبب بنتے ہیں –

اسی طرح کی  وجوہات کی بناء پرصنعتکاری کی اہمیت کم ہو جاتی ہے ، اور بیک وقت اسے آگے بڑھانا بھی بہت مشکل ہو جاتا ہے -اسلحہ اور جوتا سازی کے کارخانے لگانا نا ممکن ہے – عملی بات ہے کہ کاریگروں کو چھوٹے دوکانوں کی حد تک محدود کیا جاۓ ، ایسے دوکانوں میں جنھیں مخفی رکھنے میں انتہائی احتیاط برتی گئی ہو، جہاں شاٹ گن کی گولیوں کو دوبارہ بھرا جا سکے ، بارودی سرنگیں اور گرنیڈ وغیرہ ،اور اس وقت کی  دوسری کم از کم ضروریات کی تیاری ممکن ہو  دوسری طرف یہ بھی ممکن ہے کہ علاقے میں موجود دوستانہ دوکانوں کو اسی مقصد کے لیۓ حسب ضرورت  استعمال کیا جا سکتا ہے –

ہم اس منطقی گفتگو سے دو طرح کے نتائج اخذ کرتے ہیں – ایک یہ کہ چھاپہ ماروں کے لیۓ جوعلاقے موافق میدان کہلاتے ہیں، اور جہاں چھاپہ مار اپنے مضبوط مراکز قائم کرتے ہیں وہ علاقےعام طور پر اپنے کم  پیداوار اور غیر آباد کاری کی وجہ سے مشہور ہوتے ہیں ، جبکہ ایسے علاقے جہاں زندگی کے پنپنے کو تمام  موافق حالات ،اور آباد کاری کے تمام ضروری سہولیات موجود ہیں وہاں چھاپہ ماروں کے لیۓ صورتحال بالکل برعکس ہے – (انتہائی دلچسپ اور غور طلب صورتحال ہے )- یعنی جتنی زیادہ سہولیات ، جتنی اچھی سماجی زندگی ہو گی ، وہاں چھاپہ ماروں کو اتنی ہی غیر یقینی اور خانہ بدوشی کی سی صورتحال کا سامنا ہوگا – یہ درحقیقت اس ایک ہی سادہ سی اصول کا نتیجہ ہے – اس باب کا عنوان ہے ” نا موافق میدان میں نظام جنگ ” ، یعنی ہر وہ چیز جو انسانی زندگی کے موافق ہو ، ذرائع رسل و رسائل ،بڑی تعداد میں شہری و نیم شہری آبادی ، مشینوں سے ہموار کیا گیا زمین ، یہ تمام حالات چھاپہ ماروں کو نا موافق صورتحال سے دو چار کرتے ہیں –

دوسرا نتیجہ ، اگر چھاپہ مار طرز جنگ کے لیۓ عوامی راۓ عامہ کو ہموار کرنا ضروری ہے تو نا موافق میدان میں تو اس کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے ، جہاں دشمن کا ایک حملہ بہت زیادہ تباہی کا سبب بن سکتا ہے – یہاں اپنے نظریے کی تبلیغ جاری رکھنی  چاہیۓ اور اس کے ساتھ ساتھ کارکنوں ،کاشتکاروں اور اس علاقے میں رہائش پذیر دوسرے تمام طبقوں کی ، یکجہتی کی جدوجہد بھی کی جاۓ تا کہ چھاپہ مار گروہوں کی یکجہتی کو برقرار رکھا جا سکے – عوامی رابطوں کے اس مہم میں ، چھاپہ ماروں اور مقامی آبادی کے رشتوں کے اس مشکل مہم میں ، اگر دشمن کے کسی اڑیل سپاہی سے سامنا ہو جاۓ، اور وہ خطرناک محسوس ہو تو اسے ختم کرنے میں با لکل بھی  ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے – ان معاملات میں چھاپہ مار گروہ کو انتہائی سختی کا مظاہرہ کرنا ہوگا ، ایک غیر محفوظ علاقے میں اپنے درمیان دشمن سپاہی کی موجودگی کو کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کیا جا سکتا –

چھاپہ مار جنگ – ارنسٹو چہ گوارا

In BLA, bnf, bra, gurriella warfare on February 1, 2011 at 1:04 pm

 

چھاپہ مار جنگ – ارنسٹو چہ گوارا
(حصّہ VII )
مترجم نواز بگٹی
موافق میدان کا نظام جنگ

جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ ضروری نہیں کہ ہمیشہ چھاپہ مار جنگ ، ایسے موافق میدان میں لڑی جاۓ جہاں انہیں ( چھاپہ ماروں ) کو اپنی حکمت عملیاں اختیار کرنے میں آسانی ہو ؛ لیکن ایسا تب ہوتا ہے جب چھاپہ مار جنگ دشوار گزار علاقوں میں لڑی جا رہی ہو ، اسکی وجہ چاہے گھنے جنگلات ہوں ، بلند و بالا پہاڑ ہوں ، یا پھر بے آب و گیاہ میدان ، چھاپہ مار جنگ کی بنیادی و مسلمہ  حقائق کی بناء پر عمومی حکمت عملی ہمیشہ ایک سی ہونی چاہیئں – یہاں  ایک اہم اور غور طلب نقطۂ ہے دشمن سے سامنا ہونے  کا – اگر علاقہ اتنا گنجان ہے یا پھر اس قدر دشوار گزار ہے کہ وہاں کسی منظم فوج کا گزر مشکل ہو جاتا ہے تو چھاپہ ماروں کو چاہیے کہ وہ ان علاقوں کی جانب پیش قدمی کریں جہاں دشمن افواج کی رسائی اور اس سے  مقابلے کے امکانات ہوں-
جیسے ہی چھاپہ ماروں کی بقاء یقینی بن جاۓ ، انھیں چاہیے کہ لڑنے کے لیۓ اپنی کمین گاہوں سے مسلسل باہر نکلیں – غیر موافق میدانوں میں انکی نقل و حرکت یقیناً اتنی بہتر نہیں ہوگی ، لیکن انہیں اپنے آپ کو دشمن کی صلاحیتوں سے یقینی طور پر ہم آہنگ کرنا ہوگا ، لیکن یہ بھی ضروری نہیں کہ ایسے علاققوں کی جانب پیش قدمی میں پھرتی دکھائی جاۓ جہاں دشمن انتہائی کم وقت میں اپنی سپاہ کو بڑی آسانی کے ساتھ ، بڑی تعداد میں جمع کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو – چھاپہ مار جنگ کی تاریکی سے فائدہ اٹھانے کی روایت اتنی اہمیت کی حامل نہیں ، بہت سارے معاملات میں، دن کے وقت بھی کاروائی کے امکانات موجود ہوتے ہیں ، خصوصاً دن کے وقت نقل و حرکت ، اگرچہ اسے دشمن کی فضائی و زمینی نگرانی سے مشروط ہی کیا جاۓ – یہ بھی ممکن ہے کہ کسی جھڑپ کو لمبے وقت تک طول دیا جاۓ ، خصوصاً پہاڑوں میں ، جوانوں کی تھوڑی سی تعداد بھی لڑائی کو لمبے وقت تک طول دے سکتی ہے ، اور بہت حد تک ممکن ہے کہ دشمن کے کمک کو میدان جنگ تک پہنچنے ہی نہ دیا جاۓ –
تمام قابل رسائی جگہوں پر قریبی نظر رکھنا ایک ایسی بنیادی و آفاقی حقیقت ہے جسے چھاپہ مار کسی بھی طور پر نہیں بھول سکتے – دشمن کے کمک کو درپیش مشکلات کے سبب انکی (چھاپہ ماروں کی ) جارحیت حد درجہ بڑھ جاتی ہے ، وہ دشمن کے زیادہ قریب تک جا سکتے ہیں ، دو بہ دو اور زیادہ وقت تک لڑنا ممکن ہو سکتا ہے – اگرچہ ان قوائد کو   ، دوسرے پہلوؤں سے بھی پرکھنا لازمی ہوتا ہے ، جیسے کہ دستیاب گولہ بارود وغیرہ –
موافق میدان جنگ کی آسانیاں اپنی جگہ ، لیکن اس میں بہت سی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے ، وہ ہیں ،  دشمن کے احتیاطی تدابیر کی وجہ سے  کہ کسی بھی کامیاب جھڑپ کے نتیجے میں خاطر خواہ گولہ بارود کا ہاتھ نہ آنا ، ( چھاپہ مار جنگجو کو یہ حقیقت کبھی بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ انھیں ہتھیاروں کی فراہمی کا سب سے بڑا ذریعہ دشمن افواج ہی ہیں .) لیکن نا موافق میدان کے برعکس ،دشمن کے بھاری توپخانے کی پہنچ سے دور ، فضائی حملوں سے محفوظ ، یہاں چھاپہ مار سرعت سے اپنی جڑیں مضبوط کر سکتے ہیں ، یہاں ایک مضبوط مرکز کا قائم کیا جاسکتا ہے  جس کے ذریعے دشمن کو جنگ میں مصروف رکھا جا سکے ، جہاں حسب ضرورت چھوٹی صنعتیں قائم کی جائیں ، جیسے ہسپتال ، تعلیمی و تربیتی مراکز ، ذخیرہ اندوزی کی سہولیات ، اور پروپگینڈہ کی بنیادی تنصیبات وغیرہ –
ان (موافق ) میدانوں میں چھاپہ مار اپنی افرادی استعداد بھی بڑھا سکتے ہیں ، اس افرادی قوت میں ایسے افراد بھی شامل ہو سکتے ہیں جن کی ذمہ داریاں براہ راست جنگجوانہ نہیں ہوتیں ، اور ایسے افراد کو بھی  ہتھیاروں کے استعمال کی تربیت دی جا سکتی ہے جواچانک  چھاپہ ماروں کی قوت میں اضافے کا سبب بنے ہوں-
چھاپہ مار گروہ اپنے ساتھ کتنے افراد رکھ سکتا  ہے ، اس کا انحصار علاقے میں موجود عوامل کے  انتہائی لچکدار تخمینوں کی بنیاد پر ہوتا ہے ، حصول  رسد کے دستیاب ذرائع ، دوسرے علاقوں سے مظلوموں کی بھاری تعداد میں آمد ، دستیاب اسلحہ ، تنظیمی ضروریات ، وغیرہ – لیکن ہر طرح کے معاملے میں ، نئی آمدہ جنگجوؤں کے تعاون سے وسعت کے عملی  امکانات  بہت حد تک موجود ہوتے ہیں- ایسے گروہ کی کاروائیوں کے لیۓ میدان کی وسعت اس قدر زیادہ ہوتی ہے جتنی کہ  حالات ، اور منسلکہ علاقوں میں مصروف عمل دوسرے گروہوں کا دائرہ کار اجازت دیتے ہوں – چھاپہ مار گروہوں کے عملی دائرہ کار کے تعین میں ، مصروف عمل علاقے اور محفوظ مرکز کے درمیان فاصلے کا بھی خاطر خواہ کردار ہوتا ہے- رات کی تاریکی میں نقل و حرکت کے عمومی اصول کو مد نظر رکھتے ہوۓ کہا جا سکتا ہے کہ ان کا (چھاپہ ماروں کا ) عملی دائرہ کار ، اپنے محفوظ مرکز سے چھہ – سات گھنٹوں کے فاصلے تک ہی محدود ہوتا ہے – چھوٹے چھاپہ مار گروہ جو مسلسل کسی مخصوص علاقے میں دشمن کو کمزور کرنے میں مصروف ہوں ، اپنے محفوظ مرکز سے نسبتاً زیادہ دور تک جا سکتے ہیں-
ایسی لڑائیوں کے لیۓ ہتھیاروں کی ترجیحی  اقسام ، طویل فاصلے تک مار کرنے والے ایسے ہتھیاروں کی ہوتی ہے  جن کی گولیوں پر اٹھنے والے اخراجات کم ہوں ، اور مدگار ہتھیاروں کے طور پر خود کار و نیم خودکار ہتھیاروں کی مناسب تعداد بھی ساتھ رکھی جا سکتی ہے -اگر رائفلوں یا مشن گنوں کی بات کی جاۓ تو ،   امریکی منڈیوں میں دستیاب  گرینڈ کے نام سے مشہور (M -1 ) رائفل ایک بہتر انتخاب ہو سکتا ہے –  بہر حال اسے صرف مناسب تربیت یافتہ افراد کو ہی استعمال کرنا چاہیے ، کیونکہ اس کے غیر مناسب استعمال میں گولیوں کے بڑی تعداد میں غیر ضروری استعمال  کا خطرہ مضمر ہوتا ہے – بھاری ہتھیاروں کی درمیانی اقسام ، جیسے ٹرائی پاڈ مشین گن وغیرہ کو موافق میدان میں استعمال کیا جا سکتا ہے جسکے استعمال سے جنگجو اور ہتھیار  کی حفاظت کو بڑی حد تک یقینی بنایا جا سکتا ہے ، لیکن ایسے ہتھیار دشمن کو خود سے دور رکھنے کے لیۓ تو کارگر ہوتے ہیں ، حملے کے لیۓ نہیں –
٢٥ (پچیس ) افراد پر مشتمل ایک چھاپہ مار گروہ میں ہتھیاروں کی مثالی تقسیم کچھ یوں ہو سکتی ہے کہ ، دس سے پندرہ سنگل شاٹ رائفل لیۓ جائیں ، اور کم و بیش دس عدد خود کار ہتھیار ہوں ، گرینڈس یا دستی مشین گن ، بشمول ہلکے اور بآسانی اٹھاۓ جانے والے خود کار ہتھیاروں کے ، جیسے کہ ” براؤننگ ” یا زیادہ جدید بیلجین ایف – اے – یل (FAL ) یا ایم – ١٤ ( M -14 ) خود کار رائفل –
دستی مشین گنوں میں بہترین ہتھیار  وہی  ٩ ملی میٹر والے ہی ہیں ، جن کے گولیوں کی بھاری مقدار کو لانا لے جانا آسان ہوتا ہے – جس قدر سادہ ہتھیار ہوں اتنے ہی بہتر ہوتے ہیں ، کیوں کہ اپنی سادہ جوڑ جکھ کی بناء پر انکے پرزوں کی تبدیلی بہت آسان ہوتی ہے – یہ تمام دشمن کے زیر استعمال ہتھیاروں کے ساتھ ہم آہنگ ہوں ، ایسا تبھی ہو سکتا ہے جب ہم اسی سے چھینے ہوۓ ہتھیار اس کے خلاف استعمال کر رہے ہوں – بھاری ہتھیاروں کا استعمال عملی طور پر نا  ممکن ہوتا ہے – جہاز کچھ دیکھ نہیں پاتے اور اپنی کاروائی روک دیتے ہیں ، ٹینک اور توپ دشوار گزار علاقوں میں کسی کام نہیں آتے –
ایک انتہائی غور طلب نقطۂ ہوتا ہے رسد کا – اپنی دشوار گزاری کی وجہ سے  ایسے علاقے واقعی مشکلات کا سبب بنتے ہیں ، چونکہ  ایسے علاقوں میں کاشتکاروں کی قلیل تعداد ہوتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ جانوروں اور خوراک کی فراہمی بھی تکلیف دہ حد تک کم ہی ہوتی ہے – اس لیۓ بے حد ضروری ہوتا ہے کہ  ذرائع رسد و رسائل کو مستحکم کیا جاۓ تا کہ خوراک کی کم سے کم ضروری مقدار کو ذخیرہ کیا جا سکے جو کسی بھی برے وقت میں بہت اہمیت اختیار کر سکتی ہے – نا قابل رسائی ہونے کی بناء پر ایسے علاقوں میں سبوتاژ کی کوئی بھی بڑی کاروائی کرنے کے امکانات نہیں ہوتے ،  کیونکہ یہاں تعمیرات ، مواصلات اور کاریزوں کی تعداد بہت کم ہوتی ہے ، جنھیں براہ راست کروائی سے تباہ کیا جا سکتا ہو-
رسد کے لیۓ بار برداری کے  جانور رکھنا بہت اہم ہوتا ہے ، اس مقصد کے لیۓ  دشوار گزار علاقوں میں خچر ایک بہترین جانور ہے – جانوروں کے لیۓ خوراک کے حصول کی خاطر مناسب چراگاہ بھی اپنی دسترس میں ہونی چاہیے – خچر ان دشوار گزار پہاڑی راستوں سے بآسانی گزارنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جہاں سے دوسرے جانوروں کا گزرنا نا ممکن ہوتا ہے – انتہائی نا مساعد حالات میں بار برداری کے انسانی ذرائع بھی استعمال کرنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے ، ہر شخص ٢٥ (پچیس ) کلو گرام تک کا وژن ، کئی گھنٹوں تک ، کئی روز کے لیۓ اٹھا سکتا ہے –
رسد کے راستے میں مناسب تعداد میں درمیانی مقامات کا تعین ہونا بھی ضروری ہے ،ان درمیانی مقامات پر مکمل طور پر قابل بھروسہ لوگ تعینات ہوں  ، تا کہ  ان مقامات پر مشکل حالات میں نہ صرف سامان کو ذخیرہ کیا جا سکے بلکہ اپنے ( سامان کے نقل و حمل کے ذمہ دار ) جوانوں کو چھپنے کی سہولت بھی مہیا ہو- سامان رسد کی نقل و حمل کے لیۓ چھاپہ مار گروہ کے ما بین داخلی راستے بھی بناۓ جاۓ سکتے ہیں ، ان کو چھاپہ مار گروہ کی بڑھتی ہوئی استعداد کو مد نظر رکھتے ہوۓ وسعت دی جا سکتی ہے- حالیہ کیوبا کی لڑائی میں ، کئی کلو میٹر لمبی ٹیلیفون لائنیں بچھائی گئیں ، سڑکیں بنائی گئیں اور پیغام رسانی کا مناسب انتظام کیا گیا ، تا کہ تمام علاقوں تک رسائی کو کم سے کم وقت میں ممکن بنایا جا سکے –
رابطوں اور پیغام رسانی کے دوسرے ذرائع بھی ہیں ، جنھیں اگرچہ کیوبا کی لڑائی میں استعمال تو نہیں کیا گیا لیکن انکی افادیت مسلمہ ہے ، جیسے کے دھویں کے اشارے (Smoke Signalz )، آئینے کے ذریعے سورج کی شعاؤں کو منعکس کر کے یا پھر پیغام رساں کبوتروں کا استعمال –
اپنے ہتھیاروں کو ہمیشہ اچھی حالت میں رکھنا ، گولہ بارود پر  قبضہ کرنا ، اور سب سے بڑھ کر مناسب جوتے ، چھاپہ ماروں کی اہم ضروریات میں شیمار ہوتی ہیں ، لہٰذا سب سے پہلے پیداواری صلاحیتوں کو ان ضروریات کے حصول پر مرکوز کرنا چاہیے –  جوتے بنانے کے لیۓ ابتدائی طور پر موچیوں کی روایتی تنصیبات سے مدد لیا جا سکتا ہے ، جو دستیاب جوتوں کی تلووں کو تبدیل کریں ، اس کے بعد جوتا سازی کی منظم صنعت کا انتظام کیا جاۓ جو روزانہ بنیادوں پر مناسب مقدار میں جوتوں کی پیداوار دے سکے – پاؤڈر ( بارودی مواد ) کا بنانا بہت سادہ ہے ، اسکے لیۓ ایک چھوٹے تجربہ گاہ کی ضرورت ہوتی ہے اور باہر سے ضروری اجزاء لے کر تجربہ گاہ میں پہنچانے کی – بارودی سرنگوں کا علاقہ دشمن کو شدید خطرات سے دو چار کر سکتا ہے ، بیک وقت بڑی تعداد میں دھماکوں کی غرض سے بہت بڑے علاقے میں بارودی سرنگیں بچھائی جا سکتی ہیں ، بارودی سرنگوں کے دھماکوں سے دشمن کے سینکڑوں سپاہیوں کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے –

چھاپہ مار جنگ – ارنسٹو چہ گوارا

In BLA, bnf, bra, war game on January 26, 2011 at 2:09 am

چھاپہ مار جنگ – ارنسٹو چہ گوارا

حصّہ (VI )

مترجم نواز بگٹی

 

چھاپہ مار جنگجو کی ایک اور اہم خصوصیت ہوتی ہے اس کا لچکدار رویہ، ہر طرح کے حالات سے ہم آہنگ ہونے کی اس کی صلاحیت ، اور اپنی خدمات کو کاروائی کے دوران کسی بھی حادثے کی روشنی میں تبدیل کرنا- روایتی جنگی طریقوں پر اڑے رہنے کی بجاۓ، چھاپہ مار جنگجو جنگ کے ہر لمحے نت نۓ حربے استعمال کرتے ہوۓ دشمن کو مسلسل حیرت زدہ کیے رکھتا ہے –

ابتدائی مرحلے میں حالات لچکدار ہوتے ہیں ، ایسے مخصوص مقامات جہاں سے دشمن نہیں گزر سکتا، یا پھر ایسے مقامات جہاں سے دشمن کی توجہ بٹائی جاۓ- راستے کی مشکلات سے بتدریج آسان انداز میں نمٹتے ہوۓ ، آگے بڑھتا دشمن اکثر اپنے آپ کو اچانک مضبوط حصار میں گھرا ، آگے بڑھنے کے کوئی امکانات نہ  دیکھ کر ششدر رہ جاتا ہے- ایسا سرہ تبھی ممکن ہے جب چھاپہ مار میدان کے گہرے مشاہدے کے بعد ایسے مقامات کا انتخاب کرتے ہیں جو ناقابل تسخیر ہوں- یہاں حملہ آور سپاہ کی تعداد کے بر عکس دفاعی سپاہ کی تعداد فیصلہ کن حیثیت اختیار کرتی ہے- مناسب دفاعی تعداد کی تعیناتی سے ایک پورے بٹالین کو کامیابی سے شکست دی جا سکتی ہے-یہ عمائدین کی ایک بڑی ذمہ داری ہوتی ہے کہ موزوں طور پر صحیح  وقت اور جگہ کا انتخاب کریں جسکا دفاع بغیر پسپائی اختیار کیۓ ممکن ہو –

چھاپہ مار فوج کے حملہ کرنے کا انداز بھی جداگانہ ہے ، دشمن کو ششدر و حیرت زدہ کرتے ہوۓ جارحانہ انداز کا آغاز ، نا قابل مزاحمت، اور پھر اچانک مکمل سکوت – بچا کھچا دشمن اس یقین سے کہ فریق مخالف میدان سے فرار ہو چکا ہے ، آرام دہ محسوس کرنا شروع کرتا ہے ، معمولات زندگی کی انجام دہی کے لیۓ اپنے قلعے یا چھاؤنی میں آرام کرتے دشمن کو اچانک  دوسری جانب سے ایک نۓ مقام سے حملہ کر کے جنجھوڑا جاتا ہے، جبکہ چھاپہ ماروں کی اصل قوت چھپ کر کسی بھی طرح کے رسد و کمک کو نشانہ بنانے کا انتظار کر رہی ہوتی ہے- پھر کسی وقت چھاؤنی کی کسی دفاعی چوکی پر چھاپہ ماروں کی طرف سے  اچانک حملہ کیا جاتا ہے ، اور اسے مغلوب کر کے اس پر قبضہ کیا جاتا ہے – بنیادی چیز  اچانک اور حیران کن حکمت عملی ، اور حملوں کا تیز تسلسل ہے-

سبوتاژ کا عمل بھی انتہائی اہم ہے – بہت ضروری ہے کہ ایک انقلابی اور انتہائی پر اثر جنگی طریقے “سبوتاژ” اور دہشت گردی کے فرق کو سمجھا جاۓ، کہ دہشت گردی بذات خود ایک بے اثرعمل ہے ، جس میں بغیر امتیاز ، معصوم انسان نشانہ بنتے ہیں ، وو لوگ بھی جو آگے چل کر انقلاب کا اہم حصّہ ثابت ہو سکتے ہیں-  جب کسی انتہائی اہم انقلاب دشمن فرد/ گروہ کو نشانہ بنانہ مقصود ہو ، اسکی انقلاب دشمن سرگرمیوں ، اسکی جانب سے روا رکھی جانی والی مظالم ،یا پھر نا گزیر وجوہات کہ جن کی بناء پر ایسے شخص/ افراد کو راستے سے ہٹانا سودمند ہو ، تب دہشت گردی کا حربہ سودمند ثابت ہو سکتا ہے – مگر کم اہم لوگوں کو مارنے کا مشوره نہیں دیا جا سکتا ، کیونکہ اس سے صرف شدید رد عمل ہی کی توقع کی جا سکتی ہے ، جس کے نتیجے میں اموات میں مزید اضافے کا امکان ہوتا ہے-

دہشت گردی کے مختلف متنازعہ آراء میں ایک نقطہء اکثر پایا جاتا ہے – اکثر خیال کیا جاتا ہے کہ اس سے پولیس کے ظلم و جبر کو شہ ملتی ہے ، عوام کے ساتھ قانونی یا نیم خفیہ رابطوں میں رکاوٹ آتی ہے، اور مجموعی اتحاد نا ممکن بن جاتا ہے  جو کہ نازک موقعوں پر انتہائی اہم ہے – یہ درست ہے ، لیکن خانہ جنگی میں ایسا کیا جاتا ہے ، کیونکہ مخصوص شہروں / قصبوں میں  ریاستی افواج / اداروں کا جبر اس حد تک بڑھ چکا ہوتا ہے کہ ہر طرح کی قانونی کوششوں کو پہلے ہی دبایا جاتا ہے ، اور ایسی کوئی بھی عوامی تحریک کو نا ممکن بنایا جا چکا ہوتا ہے جسے مسلح اعانت حاصل نہ ہو -اس لئے بہت ضروری ہے کہ اس طرح کی کسی بھی کاروائی کی منصوبہ بندی انتہائی محتاط انداز میں کرتے ہوۓ  ، ممکنہ نتائج ، اور اس کے انقلاب پر ممکنہ اثرات کا بغور جائزہ لیا جاۓ- کسی بھی طرح منظم سبوتاژ ہمیشہ ایک بہترین اور پراثر  ہتھیار ہوتا  ہے ، اگرچہ یہ اس انداز میں ہو کہ پیداواری ذرائع متاثر نہ ہوں ، آبادی کے ایک بڑے حصّے کو مفلوج کیا جاۓ ، تا وقتیکہ اسکا مفلوج ہونا معاشرے کے عام زندگی پر اثر انداز نہیں ہوتا- مشروبات کے کارخانے کو سبوتاژ کرنا ایک ظالمانہ اقدام ہوگا ، مگر کسی پاور پلانٹ کے لئے یہ سب نہ صرف درست ہوگا بلکہ اس کا مشوره بھی دیا جاتا ہے- پھی صورت میں صرف مزدوروں کی ایک مخصوص تعداد ہی بیروزگاری کا شکار ہو گی ، جبکہ مجموعی صنعتی زندگی میں کوئی اتار چڑھاؤ نہیں آنے والا -مگر دوسری صورت میں مزدور تو بیروزگار ہونگے ہی ، اس کے ساتھ ساتھ خطّے کی مجموعی زندگی بھی مفلوج ہو کر رہ جاۓ گی- سبوتاژ کے طریقوں کو ہم آگے چل کر دوبارہ زیر بحث لائیں گے-

دشمن افواج کا ایک پسندیدہ  ہتھیار ، جسے جدید جنگوں میں فیصلہ کن حیثیت کا سمجھا جاتا ہے ، وہ ہے فضائیہ- کچھ بھی ہو جاۓ چھاپہ مار جنگ کے ابتدائی مرحلے میں ، بکھرے علاقوں میں ، جوانوں کے چھوٹے چھوٹے اجتماعات پر  اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا-فضائیہ کا استعمال  نظر آنے والی منظم دفاع کو منظم طریقے سے ختم کرنے کے لئے کیا جاتا ہے ، ایسی دفاعی تعمیرات کے لیۓ بڑی فوجی اجتماعات کا ہونا ضروری ہے جو بہر حال اس طرح کی لڑائیوں میں ممکن نہیں-دور دراز میدانی علاقوں میں چھاپہ مار افواج کی بکھری ہوئی ٹکڑیوں کے پیش قدمی کو روکنے کے لیۓ بھی فضائیہ کسی خاص کارکردگی کا مظاہرہ کرنے سے قاصر ہے ، اس طرح کے خطرے سے بچنے کے لیۓ چھاپہ مار رات کے وقت اپنی نقل و حرکت جاری رکھ سکتے ہیں-

دشمن کے کمزور ترین پہلوؤں میں ایک نقلو حرکت کے لیۓ زمینی اور ریل راستوں کا استعمال ہے- زمینی راستوں یا ریل کے گزرگاہوں پر اپنے کمک و رسد کی قدم بہ قدم حفاظت با لکل نا ممکن ہے- گزرگاہ کے کسی بھی مقام پر بارودی مواد کا مناسب مقدار لگا کر راستے کو مسدود کیا جا سکتا ہے، یا پھر کسی گاڑی کے گزرتے وقت دھماکہ کر کے بیک وقت راستہ کاٹنے کے ساتھ ساتھ دشمن کو شدید مالی و جانی نقصان بھی پہنچایا جا سکتا ہے -دھماکہ خیز مواد کی بھی مختلف اقسام ہیں ، انہیں بیرونی ذرائع سے خریدا  بھی جا سکتا ہے ، یا پھر آمر افواج سے چھینے گۓ بم بھی استعمال کیۓ جا سکتے ہیں ، لیکن ایسا ہمیشہ نہیں ہوتا – باہر سے تیار بم بھی برآمد کیے جا سکتے ہیں ، اور انہیں تحریک کے زیر تسلط علاقے میں کسی خفیہ تجربہ گاہ میں بھی تیار کیا جا سکتا ہے ، لیکن اس کا دارومدار چھاپہ ماروں کی صلاحیتوں اور حالات پر ہوتا ہے-

ہم اپنی تجربہ گاہوں میں پاؤڈرتیار کرتے تھے جسے دھماکہ خیز  ٹوپی کی جگہ استعمال کیا جاتا تھا ، ہم نے بوقت ضرورت بارودی سرنگوں کے دھماکوں کے لیۓ  مختلف اقسام کی دھماکہ خیز اشیاء بھی کامیابی سے بنا لی تھیں – ان میں بہتر نتائج الیکٹرک  ذرائع استعمال کرنے والے آلات سے حاصل ہوئیں- ہم نے جو پہلا بم پھوڑا وہ آمر افواج کے جہازوں سے گرایا گیا  تھا- ہم نے اس کے گرد کئی دھماکہ خیز ٹوپیاں لپیٹیں ، پھر ایک بندوق کو گھوڑے کی جگہ استعمال کیا ، بندوق کے گھوڑے کو ایک رسی باندھ کر قدرے فاصلے پر رہتے ہوۓ کھینچا گیا ، جب دشمن کا ایک ٹرک اس کے قریب سے گزر رہا تھا ہم نے یہ دھماکہ کیا-

ان طریقوں کو بہت بہتر حد تک ترقی دی جا سکتی ہے- ہمیں ایسی اطلاعات بھی مل رہی ہیں کہ الجیریا میں فرانسیسی قبضہ گیروں کے خلاف ریڈیائی لہروں کی مدد سے دور رہتے ہوۓ بارودی سرنگوں کو پھوڑا جا رہا ہے –

سڑک کنارے گھات لگا کر دشمن کے کارواں کو بارودی سنگ سے نشانہ بنانے  کے بعد بچے کھچے سپاہیوں کی تباہی ، ہتھیاروں اور گولہ بارود کے حصول میں بہت ثمر آور ثابت ہوتی ہے- متحیر دشمن اپنا اسلحہ استعمال کرنے کے قابل نہیں رہتا ، نہ ہی اسکے پاس فرار کا وقت ہوتا ہے، لہٰذا تھوڑا سا بارود خرچ کر کے بڑے نتائج حاصل کیۓ جاتے ہیں- مسلسل جھٹکوں کے بعد دشمن بھی اپنی حکمت عملی تبدیل کرتا ہے ، تنہا ٹرکوں کے بجاۓ تیز رفتار گاڑیاں قافلوں کی شکل میں استعمال کرنا شروع کرتا ہے . بہر حال  درست میدان کا انتخاب کر کے ، کارواں کو بارودی سرنگ کے ذریعے منقسم کرنے کے بعد کس ایک گاڑی پر اپنی تعام تر قوت مرکوز کر کے اسی طرح کے نتائج حاصل کیۓ جا سکتے ہیں- اس طرح کی کاروایوں کے لیۓ چھاپہ ماری کی ضروری حربوں کو ذہن میں رکھنا چاہیے ، وہ کچھ یوں ہیں ، میدان کی مکمل معلومات ، فرار کے راستوں کو پیشگی نظر میں رکھتے ہوۓ محفوظ بنانا، تمام ثانوی راستوں پر کڑی نگاہ رکھنا جن سے حملے کی جگہ تک کسی بھی قسم کی رسد پہنچانا ممکن ہو، مقامی آبادی سے قریبی تعلقات ، تا کہ بوقت ضرورت ، رسد ، نقل و حرکت اور اور زخمیوں کے لیۓ عارضی یا مستقل پناہ میں مدد کو یقینی بنایا جا سکے، منتخب مقام پر عددی برتری ،نقل و حرکت کی یقینی آزادی  اور ممکنہ حد تک تازہ دم سپاہ پر انحصار –

اگر ان تمام شرائط یقینی طور پر پورا کیا جاتا ہے تو دشمن کے کاروان رسد پر حملے کے نتیجے میں سامان رسد میں قابل قدر حصّے داری بن  سکتی ہے-

چھاپہ مار جنگ کی بنیادی اصولوں  میں سے ایک علاقے کے عوام سے مکمل ہم آہنگی ہے -حتیٰ کہ دشمن سے ہم آہنگ ہونا بھی بہت ضروری ہے ،حملے کے وقت  دشمن سے مکمل غیر لچکدار رویہ رکھنا چاہیے ، تمام چھوٹے سے چھوٹے عناصر  کے بارے میں غیر لچکدار رویہ جنھیں  جاسوسی ، یا قتل و غارت میں  ذرا بھی استعمال کیا جا سکتا ہو ، اور دشمن کے سپاہیوں یا ممکنہ عسکری فرائض انجام دینے والوں سے ممکنہ حد تک رحم سے پیش آنا چاہیے – یہ ایک اچھی حکمت عملی ہوگی کہ جب تک محفوظ ٹھکانے دستیاب نہ ہوں کسی کو قیدی نہ بنایا جاۓ – بچ جانے والوں کو آزاد کیا جاۓ – زخمیوں کی دستیاب وسائل کے دائرہ کار میں رہتے ہوۓ خوب دیکھ بھال کی جاۓ – مؤثر انداز میں سرگرم رہنے کے لیۓ عام آبادی سے انتہائی قابل احترام سلوک کیا جانا چاہیے ، انکے رسم و رواج کی پاسداری نہایت ضروری ہے – اپنے عمل سے جابر افواج کے مقابلے میں اپنی اخلاقی برتری ثابت کرنی ہے- مخصوص حالات کے علاوہ کسی کو بھی اپنی صفائی کا موقع دیے  بغیر سزا نہیں دینی چاہیے-

 

 

چھاپہ مار جنگ – ارنسٹو چہ گوارا

In BLA, bnf, bra, gurriella warfare, war game on January 24, 2011 at 3:03 am
 

چھاپہ مار جنگ – ارنسٹو چہ گوارا

حصّہ ( V  )

مترجم نواز بگٹی

چھاپہ مار جنگ کے حربے

( چہ بولیویا کے پہاڑوں میں پائپ پیتے ہوۓ ) عسکری زبان میں حربہ ، اس عملی طریقہء کار کو کہتے ہیں ، جس کے ذریعے عظیم سٹریٹیجک مقاصد کو حاصل کیا جاتا ہے –
ایک پہلو سے تو یہ حکمت عملی کی تکمیل ہیں جبکہ دوسرے پہلو سے دیکھا جاۓ تو یہ اپنے اندر مخصوص  قوانین کا درجہ رکھتی ہیں- معنوی اعتبار سے حربے حتمی مقاصد کے مقابلے میں متغیر ہوتے ہیں ، ان میں نسبتاً زیادہ لچک ہوتی ہے اور انہیں جدوجہد کے دوران مسلسل اصلاحی عمل سے گزارناچاہیے – حکمت عملی پر مبنی حربے مستقل رہتے ہیں ، جبکہ دوسرے تمام حربے لچکدار اور متغیر ہوتے ہیں- پہلی چیز جسے مد نظر رکھنا چاہیے وہ ہے چھاپہ مار کاروائی کو دشمن کی کاروائیوں سے ہم آہنگ کرنا-
چھاپہ مار گروہ کی بنیادی خصوصیت ، مسلسل متحرک رہنا ہے -اسی کی وجہ سے چھاپہ مار اس اہل ہوتے ہیں کہ تھوڑے سے وقت میں کسی بھی مخصوص جگہ سے دور ہٹ جائیں ، یا پھر مختصر وقت میں پورے خطّے سے دور نکل جائیں ، اگر ضروری ہو تو وہ اس اہل بھی ہوتے ہیں کہ کسی بھی محاصرے سے بچنے کے لیۓ لڑائی کی سمت  مسلسل تبدیل کرتے رہیں-اگر حالات کا تقاضہ ہو تو چھاپہ مار گروہ اپنی تمام تر قوت محاصرے کو توڑنے کے لیۓ وقف کر سکتی ہے ،محاصرہ ہی دشمن کا واحد ہتھیار ہے جو چھاپہ مار گروہ کو دو بدو لڑائی پر مجبور کر سکتی ہے ، اور ممکنہ طور پر ایسی لڑائی چھاپہ ماروں کے حق میں بہتر نتائج کا حامل نہیں ہوتی ، ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ محاصرے  کے نتیجے میں دشمن خود محاصرے میں آ جاۓ ، ( یعنی ایک طاقتور فوج کے محاصرے میں آۓ ہوۓ چند چھاپہ مارشکار کے سامنے پھیکے ہوۓ چارے کا کام دیتے ہیں ، اور پشت پر موجود انکے مددگار دشمن کا محاصرہ کر لیتے ہیں اور یوں  دشمن افواج  کا ایک بڑا حصّہ چند ایک چھاپہ ماروں کے رحم و کرم پر ہو ، جسے چھاپہ مار مکمل طور پر بربادی سے دوچار کر لیں یا پھر انکے رسد کو کاٹ کر انہیں بے یار و مددگار کر دیں)- ایسے لڑائیوں میں متحرک رہنے کی اس خاصیت کو نام نہاد ” منٹ ” یعنی “لمحہ ”  کہا جاتا ہے ، یہ استعارہ رقص سے لیا گیا ہے ، چھاپہ مار گروہ دشمن کے کسی مقام یا پیش قدمی کرتے مسلح ٹکڑی کا محاصرہ کر لیتے ہیں ، مثال کے طور پر یہ دشمن کا ہر چار جانب سے مکمل گھیراؤ کرتے ہیں ، ہر مقام پر پانچ سے چھہ جنگجو تعینات کر کے ، اپنے لیۓ محاصرے سے بچنے کے لیۓ مناسب فاصلہ رکھتے ہوۓ ، اب کسی ایک مقام سے لڑائی کا آغاز ہوتا ہے ، اور فوج اسی مقام کی طرف پیشقدمی شروع کرتی ہے ، وہاں موجود چھاپہ مار پیچھے ہٹتے ہیں ، بصری رابطہ رکھتے ہوۓ ، اب دوسرے مقام پر موجود چھاپہ ماروں کی طرف سے لڑائی شروع ہوتی ہے – فوج اپنی کاروائی کو دوہراتی ہے اور چھاپہ مار تحریک بھی یہی کرتی ہے – پاس کامیابی سے دشمن فوج کی ایک ٹکڑی کے حرکت کرنے کی صلاحیت صلب کرنا ممکن ہو جاتا ہے ، اسے بھاری تعداد میں گولہ بارود کے استعمال پر مجبور کرتے ہیں ، اور زیادہ خطرہ مول لیۓ بغیر دشمن افواج کے حوصلوں کو پست کرنے کا سبب بن جاتے ہیں-
بالکل یہی حکمت عملی رات کو بھی استعمال کیا جا سکتا ہے ، زیادہ قریب رہتے ہوۓ زیادہ جارحانہ انداز میں ، کیونکہ (تاریکی ) کی صورت میں چھاپہ ماروں کا محاصرہ کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے –  چھاپہ مار گروہ کی ایک اور اہم خصوصیت  رات کے اوقات میں نقل و حرکت کی صلاحیت ہے -جس کی وجہ سے وہ حملے کے لیۓ آگے بڑھ سکتے ہیں اور اگر دھوکے یا غداری کا خطرہ ہو تو اس مخصوص علاقے سے نکل کر دوسرے علاقے تک بھی چلے جاتے ہیں- چھاپہ مار گروہ میں افرادی قوت کی کمی اس بات کی متقاضی ہوتی ہے کہ تمام حملے اچانک کیے جائیں کہ دشمن حیرت زدہ رہ جاۓ ، یہ صلاحیت چھاپہ مار گروہ کو اس قابل بناتی ہے کہ کوئی بڑا نقصان اٹھاۓ بغیر دشمن کو بہت بڑے نقصان سے دو چار کر دیں- چھاپہ مار گروہ کے نقصانات کو پورا کرنے کے لیۓ بہت زیادہ وقت چاہیے ، کیونکہ ایک چھاپہ مار جنگجو کی تیاری میں بہت زیادہ مہارت کا عمل دخل ہوتا ہے ، اور مد مقابل افواج کے مقابلے میں کم از کم دس گنا زیادہ-
چھاپہ مار گروہ کے کسی شہید کی نعش کو اسلحہ و گولہ بارود کے ساتھ نہیں چھوڑنا چاہیے ، یہ ہر چھاپہ مار کا بنیادی فرض ہے کہ پہلا موقع پاتے ہی جنگی لحاظ سے انتہائی قیمتی اشیاء کو شہید کی نعش سے الگ کر کے اپنے قبضے میں لے لے- دراصل اسلحہ و گولہ بارود کی دیکھ بھال ، اور اس کا مخصوص طریقہء استعمال چھاپہ مار جنگجوؤں کی ایک اور خصوصی صلاحیت ہوتی ہے – چھاپہ مار گروہ اور باقاعدہ فوج کے درمیان کسی بھی لڑائی کے دوران صرف فائرنگ کے مخصوص طریقے کی بناء پر دونوں میں واضح فرق کرنا ممکن ہو جاتا ہے ، باقاعدہ فوج کی طرف سے بھاری فائرنگ اور چھاپہ ماروں کی جانب سے بہت کم اور بہت ہی درست نشانے پر فائرنگ –
ایک مرتبہ ہمارے ایک ہیرو نے جو اب اس دنیا میں نہیں رہے ، اپنی مشین گن کو چار سے پانچ منٹ تک مصروف کار رکھا ، برسٹ پر برسٹ فائر کرتا رہا تا کہ دشمن کی تیز رفتار پیشقدمی کو روک سکے – اس کے اس عمل کی وجہ سے ہماری سپاہ شدید تذبذب کا شکار ہوۓ ، فائرنگ کے انداز سے وہ سمجھ رہے تھے کہ اس اہم مقام پر دشمن کا قبضہ ہو گیا ، کیونکہ یہ ان بہت کم اور مخصوص مواقع میں ایک تھا ، جب کسی انتہائی اہم مقام کے دفاع میں ،  گولیوں کو بچاۓ رکھنے کے بنیادی قانون سے روگردانی کی جاتی ہے-

چھاپہ مار جنگ – ارنسٹو چہ گوارا

In BLA, bnf, bra, gurriella warfare, war game on January 23, 2011 at 4:10 pm

چھاپہ مار جنگ – ارنسٹو چہ گوارا

حصّہ ( IV )

مترجم نواز بگٹی

 

چھاپہ مار حکمت عملی

چھاپہ مار اصطلاح میں  حکمت عملی ، مجموعی فوجی صورتحال کی روشنی میں مقاصد کے حصول ، اور منزل تک پہنچنے کے تمام راستوں کے تجزیے کو کہا جاتا ہے-
ایک چھاپہ مار گروہ کے نقطہء نظر سے حکمت عملی کی درست تعریف جاننے کے لیۓ ضروری ہے کہ بنیادی طور پر دشمن کی اختیار کردہ طریقہء کار کا جائزہ لیا جاۓ- اگر حتمی مقصد فریق مخالف کی مکمل تباہی ہے تو دشمن کو اس طرح کی خانہ جنگی میں دھکیل دیا جاۓ جس سے چھاپہ مار گروہ کے تمام اجزاء ترکیبی کو مکمل تباہ کرنے کا مقصد حاصل ہو جاۓ – دوسری طرف چھاپہ مار گروہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ  ان تمام ذرائع کا بغور جائزہ لیں جن کے ذریعے دشمن اپنے ان مقاصد کو حاصل کر سکتا ہو – افرادی قوت کے ذرائع ، نقل و حرکت ، مقبول معاونت ، ہتھیار ، قائدین کی صلاحیت ، غرضیکہ ہر شے جس پر اسکا انحصار ہو سکتا ہے -لازمی ہے کہ ، دشمن کی مکمل شکست کے حتمی منزل کو ذہن میں رکھتے ہوۓ ،اسی مطا لعہ کی بنیادوں پر ہم اپنی حکمت عملی کو وضح کریں-
کچھ بنیادی پہلو ایسے ہیں جن کا مطا لعہ کرنا چاہیے ، مثال کے طور پر ہتھیار ، اور ان ہتھیاروں کے استعمال کا طریقہء کار – انتہائی اہم ہے کہ اس طرح کی لڑائیوں میں ایک ٹینک ، اور ایک جہاز کی اہمیت کو بھی پرکھا جاۓ- دشمن کے ہتھیار ، اسکا گولہ بارود اس کی عادات کو مد نظر رکھا جاۓ ، کیونکہ چھاپہ مار گروہ کے رسد کا اصل ذریعہ دشمن کے ہتھیار ہی ہوتے ہیں- اگر انتخاب کا ذرا سا بھی امکان ہو تو ہم وہی اقسام استعمال کرنا پسند کریں گے جو کہ دشمن کے زیر استعمال ہیں- چونکہ چھاپہ مار جنگجو کی سب سے بڑی کمزوری ہتھیاروں کی کمی ہوتی ہے ، اسے یقیناً دشمن کی صفوں سے پورا کرنا ہوگا-
جب مقاصد کا تجزیہ و تعین ہو جاۓ تو ضروری ہے کے حتمی مقاصد کے حصول تک کی جانے والی اقدامات کا  ترتیب وار جائزہ لیا جاۓ – اسکی پیشگی منصوبہ بندی کی جانی چاہیے ، اگرچہ اس میں بڑھتی لڑائی کے نتیجے میں غیر متوقع حالات کے مطابق  ترمیم و توازن کی گنجائش ہونی چاہیے –
ابتدائی طور پر چھاپہ ماروں کی تمام تر توجہ اپنے آپ کو تباہی و بربادی سے محفوظ رکھنے پر مرکوز رہنی چاہیے – آہستہ آہستہ چھاپہ مار گروہ کے اراکین عام طرز زندگی سے ہم آہنگی  پیدا کر لیتے ہیں- یہ نسبتاً آسانی سے جارح افواج کو جل دے کر فرار ہونے میں کامیاب ہوتے ہیں کیونکہ اب یہ روز مرّہ کا معاملہ بن جاتا ہے- اس مقام تک پہنچنے کے بعد چھاپہ مار ، ناقابل رسائی مقامات پر دشمن کی پہنچ سے دور رہتے ہوۓ ، یا دشمن کے حملوں کو روکنے والی قوت کو جمع کر کے، دشمن کو بتدریج کمزور کرنے کی جانب پیش قدمی کرتا ہے -ابتدائی طور پر ایسی کاروائی کا آغاز چھاپہ ماروں کے خلاف جنگ کے  قریبی مقامات سے ہوتا ہے ، بعد میں اسے  دشمن کی جغرافیائی حدودمیں گہرائی تک  وسیع کیا جاتا ہے ، اسکے مواصلات پر حملے کر کے ، بعد میں اسکے فعال مراکز کو ہراساں کر کے یا ان پر حملے کر کے ،غرضیکہ چھاپہ مار قوت کی تمام تر صلاحیتوں کو بروۓ کار لاتے ہوۓ دشمن پر عذاب نازل کیا جاۓ –
جھٹکے جاری رہنے چاہیئں – میدان جنگ میں دشمن سپاہ کی نیندیں حرام ہوں ، اس کی چوکیوں پر حملے کیے جانے چاہیئں اور انھیں منظم طریقے سے ختم کرنا چاہیے – ہر لمحہ دشمن اس خوف میں مبتلا ہو کہ وہ محاصرے میں ہے – جنگلوں ، اور دشوار گزار علاقوں میں تو اس طرح کی کاروائیاں دن رات کرنی چاہیئں ، جبکہ کھلے یا میدانی علاقوں میں جہاں دشمن افواج کی گشتی سپاہ کے مداخلت کے امکانات ہوں وہاں ایسی کاروائیاں رات کے اوقات میں ہوں- یہ سب کرنے کے لیۓ علاقے کے عوام کا مکمل تعاون اورکامل جغرافیائی معلومات کا ہونا بے حد ضروری ہے- یہ دو ضروریات چھاپہ مار کی زندگی کے ایک ایک لمحے پر اثر انداز ہوتی ہیں- اسی لیۓ حال و مستقبل کے مراکز کے مطالعہ کے ساتھ ساتھ پر جوش عوامی مقبولیت کے کام پر بھی زور دینا چاہیے –  انقلاب کے محرکات کی وضاحت ، اسکے اختتامی مقاصد ، اور اس ناقابل تردید حقیقت کی تشہیر کہ دشمن کا عوامی قوت پر فتح حاصل کرنا  نا ممکن ہے ، ایسی سرگرمیاں ہیں جن سے وسیع تر عوامی مقبولیت حاصل کی جا سکتی ہے –  جو اس حقیقت کو تمام شکوک و شبہات سے بالا تر نہیں سمجھتا ، چھاپہ مار جنگجو نہیں بن سکتا-
ابتدائی طور پر عمومی مقبولیت کے اس کام کو انتہائی رازداری سے انجام دینا چاہیے – وہ کچھ اس طرح کہ ہر کسان ، جس سماج میں کاروائی ہو رہی ہے اس سماج کے ہر رکن کو بتا دینا چاہیے کہ جو کچھ وہ دیکھتے یا سنتے ہیں اس کا ذکر کسی سے نہ کریں ، مقامی آبادی سے مدد طلب کرنی چاہیے ، کہ انکی وفاداری چھاپہ ماروں کو وسیع تر ضمانتیں فراہم کر سکتا ہے، اسکے بعد ان افراد کو باہمی رابطوں کے مہم میں استعمال کیا جا سکتا ہے ، ہتھیاروں کے نقل و حمل کے ساتھ ساتھ یہ اپنے جانے پہچانے علاقوں میں بہترین رہبر کا کام بھی دیتے ہیں – اسکے بعد ممکن ہے کہ منظم اجتماعی کاروائیوں کے مرحلے تک پہنچا جاۓ، جیسے کہ عام ہڑتال –
خانہ جنگی میں ہڑتالوں کو کلیدی اہمیت حاصل ہے ، لیکن ہڑتالوں کو  ضروری سلسلوں تک توسیع دینا ضروری ہے ، کیونکہ ایسا ہمیشہ نہیں ہوتا بلکہ فطری طور پر بہت کم ہوتا ہے –  اس لئے ضروری ہے کہ تمام بنیادی حالات پیدا کیے جائیں ، بنیادی طور پر انقلاب کے مقاصد کی وضاحت یا عوامی قوت کا مظاہرہ کر نے سے ایسے حالات پیدا کیے جا سکتے ہیں-
چھاپہ مار جنگ کے دوسرے خطرناک ہتھیار ،  “سبوتاژ” کی کاروائیوں کے لیۓ ، یہ بھی ممکن ہے کہ یکساں خصوصیات رکھنی والے ایسے گروہوں کا سہارا لیا جاۓ ، جنھوں نے ماضی میں کم خطرناک مہمات میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہو –  یہ بھی ممکن ہے کہ ، علاقے کی صنعتی زندگی کو معطل کر کے ،کسی شہر کی  آبادی کو،  صنعتوں سے محروم کر کے ، بجلی ، پانی ، اور ہر طرح کے مواصلاتی رابطوں سے  محروم کر کے ، سواۓ مخصوص اوقات کے شاہراہوں کے سفر کو غیر محفوظ بنا کے ، پوری کی پوری فوج کو ہی مفلوج کیا جاۓ – اگر یہ سب حاصل ہو جاتا ہے تو دشمن افواج کے حوصلے پست ہو جائیں گے ، مخالف کے لڑنے والے حصوں کے سپاہ بے حوصلہ ہو جائیں گے ، اور یوں مختصر سے عرصے میں پھل پک کر توڑے جانے کے لیۓ تیار ہو جاتا ہے- اس سے لگتا ہے کہ چھاپہ مار جنگ کا میدان وسیع تر ہوا جاتا ہے ، لیکن غیر ضروری طور پر میدان جنگ کو وسعت دینے سے گریز کرنا چاہیے- ہمیشہ ضروری ہے کہ کاروائیوں کے مرکز کو مضبوط رکھا جاۓ ، اور دوران جنگ اس مرکز کے استحکام کی مسلسل کوششیں جاری رکھنی چاہیئں – زیر تسلط علاقے کی آبادی کے نظریات کا پاس رکھنے کے ضروری اقدامات  ، اور ان سے فائدہ اٹھانا بھی ضروری ہوتا ہے –  نہ سدھرنے والے انقلاب مخالفین کا یقینی قلع قمع کیا جانا بھی اشد ضروری ہوتا ہے- خالص دفاعی اقدامات ، جیسے کہ بارودی سرنگیں ، جنگجو ٹکڑیاں، اور ذرائع مواصلات ، کا کامل ہونا بھی نہایت ضروری ہے –
جب چھاپہ مار گروہ مسلح طاقت اور جنگجوؤں کی تعداد کے معاملے میں قابل قدر مقام حاصل کر لے ، تو اسے نئی گروہ بندیاں کرنی چاہیئں ، یہ بلکل اسی طرح ہے جیسے شاہد کی مکھیوں کے چھتے میں ایک نئی ملکہ مکھی پیدا ہوتی ہے ، اور پھر مکھیوں کے جھرمٹ کے ایک حصّے کے ساتھ نۓ علاقے کی طرف چلی جاتی ہے -بنیادی چھتے کو کم خطرناک علاقے میں چند وفادار چھاپہ ماروں کے جھرمٹ میں رہنا چاہیے، جبکہ نیا جھرمٹ دشمن کے حدود میں داخل ہو کر اپنی کاروائیاں جاری رکھے ، اور نئی گروہ بندیوں کا یہ چکر اسی طرح چلتا رہے-
ایک وقت ایسا آ جاتا ہے جب زیر تسلط علاقہ ان چھاپہ مار گروہوں کے لیۓ کم پڑتا ہے ، اور دشمن کے مظبوط دفاع والے علاقوں کی جانب پیش قدمی ، اور طاقتور دشمن کا دو بدو مقابلہ ضروری ہو جاتا ہے – ایسے وقت میں یہ گروہ مل کر ایک متحدہ محاظ تشکیل دیتے ہیں ، اور جنگ کی سی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے ، ایسی جنگ جو باقاعدہ فوجوں کے بیچ لڑی جاۓ – بہر حال نئی وجود میں آنے والی فوج اپنے سابقہ چھاپہ مار مرکز سے لا تعلق نہیں رہ سکتی ، اور اسے ، اسی انداز میں نۓ گروہ تیار کر کے مد مقابل افواج کی پشت پر تعینات کرنی چاہیئں ، جو کہ پرانی طریقہء کار کے مطابق دشمن کے زیر تسلط علاقوں میں اپنی کاروائیاں جاری رکھیں گے ، تاوقتیکہ مکمل غلبہ نہیں حاصل ہوتا-
پس یوں چھاپہ مار عام حملے کے مرحلے تک پہنچ جاتے ہیں – مضبوط مراکز کے محاصرے ، دشمن کے کمک کی شکست  کے سبب ، اجتماعی کاروائیوں کی وجہ سے ، ہمیشہ سے کہیں زیادہ پرجوش ، پورے قومی خطّے میں ، اپنے حتمی مزل کے قریب پہنچ جاتے ہیں ، یعنی جنگ ؛ فتح-
(جاری ہے …….)

 

چھاپہ مار جنگ – ارنسٹو چہ گوارا

In BLA, bnf, bra, gurriella warfare, war game on January 22, 2011 at 11:26 am

چھاپہ مار جنگ – ارنسٹو چہ گوارا

حصّہ سوم

مترجم نواز بگٹی

ماؤ کے چینی تحریک کا آغاز اگرچہ جنوب کے منظم مزدوروں کی جدوجہد سےہوتا ہے ، جسے شکست سے دوچار ہونا پڑا ، اور قریب  تھا کہ تحریک تباہی سے دوچار ہوتی ، پھر اسے دوبارہ استحکام اور آگے بڑھنے کا موقع ینان کے لانگ مارچ کے بعد نصیب ہوتا ہے ، جب تحریک اپنی بنیادیں دیہی علاقوں میں رکھتی ہے اور زرعی اصلاحات کو اپنا بنیادی مقصد بناتی ہے – اسی طرح ہوچی منہ کی تحریک بھی چاول کے کاشتکاروں کی مرہون منت ہے ، جن کے حقوق فرانسیسی نو آبادیاتی دیو نے غصب کیے ہوۓ تھے -انہی کی طاقت کے سہارے وہ (ہوچی منہ ) نوآبادی نظام کو شکست دینے کے لیۓ آگے بڑھتا ہے – متذکرہ دونوں معاملات میں جاپانی حملہ آوروں کے خلاف ملی حمیت کا جذبہ تو کارفرما تھا ہی ، لیکن زمین کی ملکیت کا اقتصادی پہلو بھی یکسر ختم نہیں ہوتا- الجیریا ہی کی مثال کو سامنے رکھیں جہاں عظیم تر عرب قومیت کے پہلو میں بھی اقتصادیات کھڑی نظر آتی ہیں – درحقیقت دس لاکھ کے قریب فرانسیسی تقریباً الجیریا کے تمام قابل کاشت رقبے سے مستفید ہو رہے ہیں -چند ایک ملک ، جیسے کہ پورٹو ریکو ہے ، جہاں جزیرے کی مخصوص حالات چھاپہ مار جنگ کی اجازت نہیں دیتے ، یہاں بھی  روز مرّہ بنیادوں پر مجروح ہوتی ملی حمیت کے نتیجے میں قومی بیداری کی لہر کے پیچھے اقتصادی وجوہات کارفرما ہیں ، اس( قومی بیداری) کا ماخذ بھی کاشتکاروں (جنکی اکثریت پہلے ہی کھیت مزدور کی غلامانہ حیثیت میں رہتی ہے  ) کی ، “یانکی” حملہ آوروں کے زیر قبضہ زمینوں کو واگزار کروانے سے ہے  – یہی وہ مرکزی خیال ہے جو تیس سالہ جدوجہد آزادی کے دوران  مشرقی کیوبا کی ریاستوں کے چھوٹے کاشتکاروں ، کسانوں اور غلاموں کو حریت پسندوں کی جانب راغب کرتی ہے ، تاکہ وہ زمین کی ملکیتی حقوق کا مشترکہ دفاع کر سکیں

 

چھاپہ مار جنگ کی مرحلہ وار ترقی کے امکانات ، ( کہ آگے چل کر یہ باقاعدہ جنگ میں بدل سکتی ہے ) کو مد نظر رکھتے ہوے کہا جا سکتا ہے کہ اس طرح کی لڑائیاں اپنے مخصوص کردار کے باوجود دوسرے کے  لئے بار آور بیج  ، تعارفی مراحل کی حیثیت رکھتے ہیں- چھاپہ مار جنگ کے روایتی جنگ میں بدل جانے کے امکانات اتنے ہی ہوتے ہیں ، جتنے کہ ہر چھوٹی لڑائی ، مقابلے یا جھڑپ کے  بعد دشمن کی شکست کے بڑھتے ہوۓ امکانات، اسی لئے بنیادی اصول یہی ہے کہ کوئی بھی لڑائی ، جھڑپ ، یا مقابلہ اس وقت تک لڑی جاۓ جب تک  اس میں واضح فتح نہیں حاصل ہوتی- یہاں چھاپہ مار جنگ کی ایک شرارتی تعریف کا بھی ذکر کرتا چلوں ، کہ ” چھاپہ مار جنگجو ، جنگوں کے  پراسرار دیو مالائی دربار سے منسلک ہوتا ہے ” ، یہ رازداری، دھوکہ دہی ، اور متحیر کن خصوصیات کی طرف اشارہ ہے ، جنھیں چھاپہ مار جنگ کے بنیادی عناصر کے طور پر جانا جاتا ہے – یہ مخصوص  پراسرار آفاقی / دیومالائی  کیفیت فطری طور پر حالات کی پیدا کی ہوئی ہے، جنکے تحت مخصوص اوقات میں ، روایتی رومانوی یا حمایتی طریقہء کار کے برعکس عمل کی متقاضی ہوتی ہے ، جو ہمیں یقین دلانا چاہتی ہیں کہ جنگ لڑی جا چکی ہے

جنگ ہمیشہ ایک ایسی جدوجد کا نام ہے جس میں مدمقابل قوتیں ایک دوسرے کو نیست و نابود کرنے کی کوشش کرتی ہیں- وہ اپنی مقصد کو حاصل کرنے کے لئے تمام ممکنہ حکمت عملیوں اور حربوں سے استفادہ کرتے ہیں. عسکری حربے اور حکمت عملیاں گروہ کے  مجوزہ مقاصد اور انھیں حاصل کرنے کے ذرائع کو ظاہر کرتی ہیں- یہ ذرائع دشمن کی تمام کمزوریوں کے بغور جائزے کے بعد ان سے فائدہ اٹھانے کے ہوتے ہیں- کسی بھی بڑی فوج کے لڑنے والے انفرادی پلٹن کی خصوصیات بعینہ چھاپہ مار گروہ کی خصوصیات کو ظاہر کرتی ہیں- ایسی پلٹنیں بھی رازداری ، دھوکا دہی ، اور متحیر کرنے والی حکمت عملی کا استعمال کرتی ہیں ، اگر وو ایسا نہیں کر پاتیں تو اس سے دشمن کی بہترین جاسوسی کا نتیجہ ہی قرار دیا جاتا ہے – مگر چونکہ چھاپہ مار گروہ اپنے جوہر میں منقسم ہوتی ہے اور اسکا دائرہ عمل بہت بڑے خطّے کا احاطہ کرتی ہے ، جس پر دشمن کا مکمل اختیار نہیں ہوتا ، لہٰذا چھاپہ مار اپنے حملوں میں دشمن کو متحیر کرنے کے عنصر کو یقینی بنا لیتا ہے – اور ایسا کرنا اس کے لیۓ از حد ضروری ہے- مارنا اور فرار ہونا . بعض لوگ مزاحیہ طور پر بھی ایسا کہتے ہیں، اور یہی درست ہے – مارو اور بھاگ جاؤ ، انتظار کرو ، شبخون کے لئے بیٹھے رہو ، پھر مارو اور بھاگ جاؤ ، ہر بار کا اسی طرح کا عمل تاکہ دشمن کو سکون میسر نہ ہو سکے – اس میں یہی سب ہے ، ہو سکتا ہے یہ منفی خصوصیت ہو ، شکست تسلیم کرنے کا رویہ ، یا پھر دو بدو لڑائی سے گریز ہو – بہر حال یہ چھاپہ مار جنگ کی عمومی  حکمت عملی کا نتیجہ ہیں – جس کا مقصد ہرجنگ کی طرح اپنے منطقی انجام تک فتح اور دشمن کی مکمل تباہی ہی ہے

پس یہ واضح ہے کہ چھاپہ مار جنگ ایک ایسا مرحلہ ہے جو بذات خود فتح یاب ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتا – یہ جنگ کا شروعاتی مرحلہ ہے ، جو مسلسل ترقی کرتا رہتا ہے ، حتیٰ کے ایک وقت ایسا آ جاتا ہے جب چھاپہ مار جنگجو گروہ ایک باققیدہ فوج کی شکل اختیار کر لیتی ہے – تب جا کر یہ اس قابل ہوتا ہے کہ دشمن کو آخری جھٹکا دے کر تباہی سے دوچار کرے ، اور فتح یاب ہو- کامیابی ہمیشہ باقاعدہ فوج کو ہی حاصل ہوتی ہے ، اگرچہ اس کا آغاز چھاپہ مار جنگجو گروہ ہی کرتے ہیں-
جیسے کہ کسی بھی جدید فوج کے کسی جرنیل کے لئے ضروری نہیں کہ وہ میدان جنگ میں اپنی سپاہ کے سامنے اپنی جان دے ، اسی طرح ایک چھاپہ مار جنگجو چونکہ خود ہی اپنا جرنیل ہوتا ہے اس لئے ضروری نہیں کہ وہ ہر لڑائی میں اپنی جان جان آفرین کے سپرد کر دے- وہ اپنی جان دینے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتا ہے ، چھاپہ مار جنگ کا یہی مثبت پہلو ہوتا ہے کہ اس کا ہر سپاہی ، کسی نظریے کی تحفظ کے لئے نہیں بلکہ نظریے کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے اپنی جان دینے کے لئے  تیار ہوتا ہے-یہی بنیادی بات ہے ، چھاپہ مار جنگ کا اصل جوہر – معجزاتی طور پر ، تھوڑے سے لوگوں کا یہ گروہ ، عظیم عوامی قوت کا ہراول دستہ ، فوری نتائج کے مروجہ حربوں سے بہت آگے نکل جاتا ہے ،نظریاتی مقاصد کے حصول کے لئے  فیصلہ کن فتح کی سرحدوں کو چھوتا ہوا ، ایک نئی سماج کی تشکیل کے لئے ، پرانی اور فرسودہ روایات کو توڑتے ہوۓ، اور انجام کار جس سماجی انصاف کے لئے وہ لڑتا رہا ، اسے حاصل کر لیتا ہے –
پس یہ  تمام کم مایہ خصوصیات حقیقی عظمت میں تبدیل ہو جاتی ہیں ، عظمت انجام جو ان کا مقصد ہوتا ہے ، یہ واضح ہوتا ہے کہ ہم مقاصد کے حصول کی خاطر کسی قابل مذمت ذرائع کے استعمال کی بات نہیں کر رہے – مقابلے کا یہی رویہ ، ایسا رویہ جس میں کسی بھی لمحے کے لئے خوف کا شائبہ تک شامل نہ ہو ، منطقی مقاصد کے حصول کی خاطر لڑنے کی یہی مستقل مزاجی ہی دراصل ایک چھاپہ مار جنگجو کی عظمت ہوتی ہے –

(جاری ہے …….)

چھاپہ مار جنگ – ارنسٹو چہ گوارا

In BLA, bnf, bra, gurriella warfare, war game on January 22, 2011 at 3:54 am

چھاپہ مار جنگ – ارنسٹو چہ گوارا

(حصّہ دوئم )

 

مترجم نواز بگٹی

 

تیسرے عامل کا تعلق بنیادی حکمت عملی سے ہے – یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ جو لوگ چھاپہ مار جنگ کا مرکز شہروں کو سمجھتے ہیں وہ درحقیقت کم ترقی یافتہ امریکی دنیا کے طول و عرض میں روز مرہ معاملات کی انجام دہی کے لئے دیہی سماج کے بھرپور کردار کو بھول رہے ہوتے ہیں – یقیناً شہری سماج کے منظم مزدوروں کی جدوجہد کی اہمیت بھی کچھ کم نہیں ، لیکن حقیقی مسلح جنگ میں انکی عملی شمولیت کے امکانات کا محتاط جائزہ لینا از حد ضروری ہے، خصوصاً ایسے حالات میں جن شہریوں کے تحفظ کی روایتی  آئینی و ریاستی ضمانتیں معطل ہوں یا انھیں جان بوجھ کر نظر انداز کیا جا رہا ہو- ایسی صورت میں غیر قانونی مزدوروں کی تحریک کو شدید خطرات کا سامنا ہوتا ہے- انھیں چاہیے کہ رازداری سے غیر مسلح رہ کر اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں- لیکن کھلے ڈلے دیہی ماحول میں حالات قدرے آسان ہیں ، یہاں غاصب قوتوں کی پہنچ سے دور ایک چھاپہ مار جنگجو مقامی آبادی کی مدد کر سکتا ہے- آگے چل کر ہم کیوبا کے انقلاب کے تجربات سے اخذ کیے گۓ ان تینوں نتائج کا بغور جائزہ لیں گے- فی الحال ہماری کوشش ہے کہ ان پر بنیادی عوامل کی حیثیت سے بحث کی جاۓ

 

چھاپہ مار جنگ ، جو کہ قوموں کی جدوجہد آزادی کی بنیاد ہے ، اپنے اندر متنوع خصوصیات اور متضاد حقائق رکھنے کے باوجود ہر جگہ قومی آزادی کی لازمی بنیادی اور مشترکہ خصوصیت رکھتی ہے- یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ تمام جنگیں کچھ سلسلہاۓ سائنسی قوانین کی تابع ہونی چاہیئں ، اور اس موضوع پر لکھنے والے اکثر مصنفین بھی اس پر متفق نظر آتی ہیں- ان قوانین سے روگردانی کا انجام شکست کی گہری کھائیوں میں غرقاب ہونا ہی ہے- اگرچہ چھاپہ مار جنگ بھی جنگ ہی کا ایک مرحلہ ہے لہذٰا اسے بھی ایسی تمام قوانین کا تابع ہونا ضروری ہے، لیکن اپنی مخصوص پہلوؤں کی وجہ سے چھپا مار جنگ کو جاری رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ چند حادثاتی اصولوں کو بھی تسلیم کیا جاۓ – کسی بھی خطّے کی انفرادی جغرافیائی و سماجی حالات ہی چھاپہ مار جنگ کی حتمی وضح قطع کا تعین کرتی ہیں ، لیکن کچھ عمومی قواعد ایسے بھی ہیں جو اس طرح کی تمام لڑائیوں پر یکساں لاگو ہوتی ہیں

 

یہاں ہمارا مقصد ، اس طرح کی لڑائیوں کے لئے ، ان بنیادی قاعدے قوانین کی شناخت و تعین ہے کہ جنکی پیروی آزادی پسند لوگوں کی تحریکوں میں لازمی ہے ،  حقائق کی رو سے نظریات کی تشکیل ، اور اپنے تجربات کو متشکل کر کے دوسروں کے فائدے کی غرض سے عام کرنا ہے

 

پہلے تو ہم اس سوال پر غور کرتے ہیں کہ چھاپہ مار جنگ لڑنے والی سپاہ آخر کون ہیں؟ ایک طرف ہمارے سامنے غاصبوں اور انکے زرخریدوں کا گروہ ہے ، ایک پیشہ ور فوج ، خوب مسلح و منظم ، جو کہ اکثر اوقات بیرونی و اندرونی (اپنے ملازم نوکر شاہی ) امداد سے بھی مستفید ہوتی ہے – جبکہ دوسری طرف ایک خطّے یا قوم کے لوگ ہیں  یہاں یہ بتانا بہت اہم ہے کہ چھاپہ مار جنگ ایک اجتماعی جنگ ہے ، عوامی جنگ – چھاپہ مار جنگجو تو مسلح مرکزے کی حیثیت رکھتے ہیں ، لوگوں کے ہر اول دستے کی حیثیت – انکی طاقت کا بہت حد تک عوام پر ہی انحصار ہوتا ہے – چھاپہ ماروں کو کسی بھی مد مقابل فوج کے مقابلے میں صرف اس لئے کمزور نہیں سمجھنا چاہیے کہ انکی گولہ باری کی صلاحیتیں نسبتاً کم ہیں- چھاپہ مار جنگ وہی لڑتے ہیں جنکے پاس وسیع عوامی تائید ہونے کے باوجود اپنی دفاع کے لئے قلیل اسلحہ و بارود دستیاب ہوتا ہے

 

چھاپہ مار جنگجو کو علاقے کے عوام کی مکمل حمایت کی ضرورت ہوتی ہے – یہ ایک نا قابل تردید شرط ہے – اسے مزید واضح کرنے کے لئے کسی بھی علاقے میں سرگرم عمل مجرموں کے گروہ کی مثال لی جا سکتی ہے ، یہ چھاپہ مار جنگجوؤں کی تمام خصوصیات رکھتی ہیں ، اشتراکیت ، قیادت کا احترام ، جرأت ، علاقے کی بہترین معلومات ، اور اکثر سمجھداری سے وضح کی گئی حکمت عملی بھی اختیار کرتے ہیں – لیکن جس چیز کی کمی رہتی ہے ، وہ ہے واضح عوامی حمایت -اور انجام کار ایسے گروہ ریاستی طاقتوں کی جانب سے بہت جلد گرفتاری یا تباہی سے دوچار ہوتی ہیں

 

چھاپہ مار گروہ کی سرگرمیوں کی شکل و صورت کا جائزہ لینے ، اسکی جدوجہد کے وضح قطع کو دیکھنے ، عوام میں اسکی جڑوں کو سمجھنے کے بعد ہم اس سوال کا جواب دے پاتے ہیں کہ ایک چھاپہ مار جنگجو آخر لڑتا کیوں ہے ؟ ہم اس حتمی نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ چھاپہ مار ایک سماجی اصلاح کار ہوتا ہے ، کہ وہ اپنے ناراض عوام کے احتجاج پر لبیک کہتے ہوۓ غاصبوں کے مقابلے کے لیۓ  ہتھیار اٹھاتا ہے ، اور وہ اس سماجی نظام کی تبدیلی کے لیۓ ہتھیار اٹھاتا ہے جس میں اس کے غیر مسلح بھائی بند تکلیف دہ اور قابل رحم زندگی گزارنے پر مجبور ہیں – وہ ایک مخصوص وقت میں راج کرنے والے اداروں کے خلاف ڈٹ جاتا ہے ، اور اپنی تمام تر قوت ایسے ادارے کی تباہی کے جنگ میں جھونک دیتا ہے

 

جب ہم چھاپہ مار جنگ کی حکمت عملیوں کا مزید باریکی سے  جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ چھاپہ مار جنگجو کے لیۓ ارد گرد کے علاقے کی جامع معلومات ہونا بہت ضروری ہیں –  چھاپہ مار کا ، داخلی و خارجی راستوں ، تیز نقل و حرکت کے امکانات ، بہتر کمین گاہوں  ، اور فطری طور پر عوامی اعانت پرہی انحصار رہتا ہے –  یہاں واضح ہوتا ہے کہ چھاپہ مار جنگجو وسیع و عریض بیابانوں میں سرگرم رہتا ہے ، جہاں آبادی نسبتاً بہت کم ہوتی ہے – بہرحال ان علاقے کے لوگوں کی شدید خواہش ہوتی ہے کہ زمین کی مالکانہ حقوق کے غاصبانہ قوانین تبدیل ہوں اور  چھاپہ مار جنگجو بلاشبہ ایک زرعی اصلاح کار ہوتا ہے – وہ کاشتکاروں کی غالب اکثریت کے  خواہشات کی نمائندگی کر رہا ہوتا ہے – ان خواہشات میں کاشتکاروں کی اپنی زیر کاشت زمین کی ملکیت کے حقوق ، اپنے پیداواری ذرائع کے مالکانہ حقوق ، اپنے چوپیاؤں اور ہر اس چیز کے مالکانہ حقوق  جسے وہ تنکا تنکا جوڑتے ہیں اور اپنا سمجھتے ہیں ، جن پر انکی زندگی  اور موت کا انحصار ہوتا ہے

 

یاد رہے کہ موجودہ تشریحات کی رو سے دو طرح کی چھاپہ مار جنگیں اپنا وجود رکھتی ہیں – جن میں سے ایک کا تعلق عظیم فوجی طاقتوں کی مدد سے ہے ، جیسا کہ روس کے معاملات میں یوکرینی جنگجوؤں کا کردار رہا ہے ، ہم ان کے تذکرے سے پہلو تہی کریں گے – ہماری دلچسپی کا مرکزدوسری قسم کے جنگجو ہیں ، ایسے مسلح جنگجو گروہ جو کسی مستحکم قوت (نو آبادیاتی ہو یا نہ ہو )  سے پنجہ آزمائی کر رہے ہوں ، ایسا گروہ جسکا ایک مرکز ہو اور وہ دیہی علاقوں میں سرگرم ہو – چاہے لڑائی کے مقاصد کا ماخذ کوئی بھی نظریہ ہو ، ایسے تمام معاملات میں اقتصادی پہلو کا تعلق ہمیشہ زمین کی ملکیت سے ہوتا ہے

 

(جاری ہے …….)